سردار مینگل کو ویرانے میں کیوں دفنایا گیا؟
تحریر:محمد کاظم مینگل
بلوچ قوم پرست رہنما سردار عطاء اللہ مینگل کی تدفین کے لیے ضلع خضدار میں اُن کے آبائی علاقے وڈھ میں جس مقام کا انتخاب کیا گیا تھا اس پر سیاسی رہنماء کارکن اور عام آدمی سمیت ہر شخص حیران تھا۔
حیرانی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ نہ صرف وہ جگہ آبادی سے اچھی خاصی دور تھی بلکہ وہاں بننے والی یہ پہلی قبر تھی۔ تدفین کے موقع پر یہی سوال نہ صرف زیر بحث رہا بلکہ یہ سوال سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو پریشان بھی کرتا رہا۔
تاہم جب بعض سیاسی رہنما فاتحہ پڑھنے سے قبل قبر کے پاس آئے تو بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے یہ معمہ ان کے لیے حل کردیا۔
ایک ویران علاقے میں تدفین کی وجہ سردار اختر مینگل نے کیا بتائی؟
وڈھ شہر میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد سردار عطاء اللہ مینگل کے جسد خاکی کو شہر کے کسی بڑے قبرستان میں نہیں لے جایا گیا بلکہ شہر سے مشرق کی جانب گاڑیوں کی بڑی تعداد روانہ ہوگئی۔ لوگوں نے بتایا کہ اُن کی تدفین شہداء قبرستان میں ہوگی لیکن جب صحافی وہاں پہنچے تو دور دور تک کسی قبر کے آثار نہیں تھے، جس کے بعد سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے تجسس میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔
دعا سے قبل بزرگ سیاسی رہنما ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ، پشتونخوامیپ کے رہنما عبد الرحیم زیارتوال اور سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیت سمیت متعدد دیگر رہنما جب سردار اختر مینگل کے پاس وجہ پوچھنے آئے تو انہوں نے بتایا کہ سردار عطاء اللہ مینگل نے اسی علاقے میں تدفین کی وصیت کی تھی۔
ان کے مطابق سردار عطاء اللہ مینگل اپنی زندگی میں اس علاقے کا اکثر دورہ کرتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے خاندان کے افراد کو بلکہ قبیلے کے عمائدین کو بھی یہ وصیت کی تھی کہ اُن کی تدفین اس مقام پر کی جائے۔
اس قبر کے قریب کوئی آبادی نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ فاصلے پر صرف ایک گھر ہے جو سردار عطاء اللہ مینگل کے جلا وطنی اختیار کرنے والے بڑے صاحبزادے میر جاوید مینگل کا ہے۔ اس جگہ پر تدفین کی وصیت کا پس منظر کیا ہے؟
سردار اختر مینگل نے بتایا کہ ہم لوگوں کا آبائی قبرستان وڈھ شہر کے عقب میں ہے لیکن والد نے وہاں کے بجائے لوہی میں تدفین کی وصیت کرائی جوکہ چند کلو میٹر کے فاصلے پر وڈھ شہر کے مشرق میں واقع ہے۔
سردار اختر مینگل نے بتایا کہ اس علاقے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ نصیر خان نوری جب یہاں آتے تھے تو وہ اس علاقے میں اپنا پڑاؤ ڈالتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ سردار عطاء اللہ مینگل نصیر خان نوری سے زیادہ متاثر تھے اور وہ ان کے آئیڈیل تھے کیونکہ نصیر خان نے نہ صرف بلوچ قبائل کو اکٹھا کیا بلکہ ان کی پہلی کنفیڈریسی بھی قائم کی۔ میرے والد اکثر ان کی کاوشوں کا ذکر کرتے تھے اور شاید اسی وجہ سے انہوں نے اپنی قبر کے لیے اس مقام کا انتخاب کیا۔
اس سوال پر وہاں کوئی پرانی قبریں ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ شہدا کا قبرستان لوہی سے آگے ہے جوکہ دود کی کہلاتا ہے۔ اس علاقے میں گوہرام اور لالو سمیت نورا مینگل کے ان دیگر ساتھیوں کی قبریں ہیں جو کہ انگریزوں کے ساتھ معرکے میں شہید کئے گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ اس معرکے میں بہت سارے لوگ مارے گئے تھے جن کو الگ الگ دفن کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے شاید ان کو ایک جگہ ہی دفن کیا گیا تھا۔ جو لوگ انگریزوں کے خلاف جنگ میں مارے گئے تھے ان کی یاد میں میرے والد نے وہاں ایک یادگار تعمیر کروائی تھی اور اُن پر مارے جانے والوں کے نام کندہ کروائے تھے۔
سردار عطاء اللہ مینگل سے قبل نواب خیر بخش مری کی تدفین ان کے آبائی علاقے کوہلو کی بجائے کوئٹہ میں ہزار گنجی کے علاقے میں کی گئی تھی کیونکہ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا ان کی تدفین اس علاقے میں کی جائے جہاں ان کے بہت سارے فکری ساتھی مدفون ہیں۔
نواب مری کے بڑے بیٹے نوابزادہ چنگیز مری نے نواب خیر بخش مری کی لاش کو کوہلو لے جانے کی کوشش کی تھی لیکن ریلوے ہاکی گراؤنڈ سے لوگوں نے ان کی لاش کو کوہلو جانے نہیں دیا تھا۔ جبکہ ان دونوں رہنماؤں سے قبل خیبر پختو نخوا سے تعلق رکھنے والے خدائی خدمت گار تحریک کے بانی باچہ خان کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق افغانستان کے شہر جلال آباد میں کی گئی تھی۔
سردار عطاء اللہ کو حالات زندگی لکھوانے پر قائل نہیں کروایا جاسکا۔
سردار عطاء اللہ مینگل کا شمار ان سیاسی رہنماؤں میں ہوتا تھا جنہوں نے طویل عرصے تک جدوجہد کی۔
ایک سوال پر سردار اختر مینگل نے کہا کہ میں نے اور میرے بھائی نے انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی وہ اپنے حالات زندگی کو تحریر کروائیں تاکہ ان کوکتابی شکل دی جاسکے لیکن وہ اس بات کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ والد کہتے تھے کہ بائیو گرافی کے لیے سچ لکھنا پڑے گا جبکہ جھوٹ مجھے بولنا نہیں آتا۔
وفات سے پہلے طویل عرصے تک سردار عطاء اللہ مینگل کی خاموشی پر اختر مینگل کاکیا کہنا تھا؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سردار عطاء اللہ مینگل نے گذشتہ پانچ سے آٹھ سال کے دوران نہ صرف عملی سیاست کو ترک کیا بلکہ انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کی۔
اس سلسلے میں صحافیوں کے ایک سوال پر سردار اختر مینگل نے کہاکہ وہ بلوچستان بالخصوص پاکستان کی سیاست سے بہت زیادہ مایوس ہوچکے تھے۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی یہ رائے تھی کہ پاکستان میں آپ اسٹیبلشمنٹ کا دم چھلا بن کر سیاست کر سکتے ہیں یا پھر اپنے لیے قبر بنالیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک صحافی نے کراچی میں جب ان سے انٹرویو کی درخواست کی تو انہوں نے کہا تھا کہ بھیڑوں کے سامنے کیا بین بجاؤں۔ کسی کو سمجھ آئے تو میں بات کروں۔ صبح شام ان کے سامنے واقعات رونما ہوتے ہیں کسی کو سمجھ ہی نہیں آتی ہے۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ ان کی سیاست ہی ہمارے لیے وصیت اور نصیحت ہے۔ گلو گیر آواز میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ رشتہ صرف باپ اور بیٹے کا نہیں تھا بلکہ ایک استاد اور لیڈر کا بھی تھا۔ اُن کا جو مقصد تھا اس پر ہم پورا اترے ہیں یا نہیں تاہم انہوں نے ہمیں جو منزل دکھائی ہے ہم کوشش کریں گے اس پگڈنڈی کو نہ چھوڑیں۔