ایران بارڈرکی بندش سے پنجگور کی معیشت کا پہیہ جام
پنجگور (ڈیلی گرین گوادر) ایران بارڈر کی بندش سے پنجگور کی معیشت کا پہیہ عملاً جام ہوچکا ہے 80 فیصد کاروبار ختم گیراج آٹوز والے سبزی پرچون کے بیوپاری بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں ایران کی طرف سے بارڈر کی بندش کو آج 45 دن سے زائد ہوچکا ہے 75 فیصد لوگوں کا روزگار ایران بارڈر سے منسلک ہے خاص کر پنجگور کے 40 فیصد دیہی عوام کا براہ راست گزربسر سرحدی تجارت سے ہوتا ہے اور یہ 40 فیصد اس وقت زندہ رہنے کے قابل ہوسکتے ہیں جب انکو بارڈر سے چھوٹے پیمانے پر تجارت کرنے کی اجازت ملتا ہے دوسری صورت میں انکی مثال مچھلی کی طرح ہے جسے جب پانی سے نکالا جاتا ہے تو وہ فورا مرجاتی ہے پنجگور کے اکثریتی آبادی مچھلی کی طرح ہے بارڈر انکی زیست کا سوال ہے یہاں ماسوائے چند ہزار سرکاری نوکریوں کے روزگار کا کوئی دوسرا متبادل زریعہ نہیں ہے زمینداری کا شعبہ حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب سے تباہ ہوچکا ہے ہزاروں ٹن کجھور کی فصل برباد ہوئی خشک آبہ زرعی بنداب سیلاب سے ٹوٹ کر بکھر گئیں لوگوں کی بقا کا واحد زریعہ جو ایران بارڈر تھا اسے بھی وقت کے ساتھ ساتھ محدود کیا جارہا ہے اب یہ 45 دنوں سے ایرانی سرحدی حکام کے کہنے پر بند ہے مقامی انتظامیہ اور دیگر کنسرن اداروں کے مطابق بارڈر کو ایرانیوں نے تعمیراتی کاموں کی وجہ سے بند کردیا ہے جوں ہی انکی طرف سے گرین سگنل ملے گا عوام کو اس بابت آگاہ کیا جائے گا بحرحال معاملات جو بھی ہیں بارڈر کی بندش کے منفی اثرات پورے بلوچستان میں پھیل رہے ہیں بلوچستان کے دیگر حصوں میں بھی روزگار کے دیگر زرائعے لوگوں کو میسر نہیں نصیرآباد سے لیکر حب چوکی پشین نوشگی چاغی سے لیکر گوادر تک لاکھوں عوام ایران سے ڈیزل کے پرخطر کاروبار سے اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلاتے ہیں جب سے ایران سے ڈیزل کے کاروبار کو محدود کیاگیا ہے پنجگور سے لیکر کوئٹہ اور حب چوکی تک سنکڑوں ریستوران ہوٹل جن پر کئی ہزار لوگ روزگار کرتے تھے وہ اب بند ہوچکے ہیں بارڈر کی بندش سے صرف زمباد اور دو ہزار گاڑی مالکان اور انکے ورکرز بے روزگار نہیں ہوئے بلکہ اسکے منفی اور تباہ کن اثرات سے بلوچستان کا رہنے والا ہر فرد متاثر ہوچکا ہے بچوں کی تعلیم صحت کے معاملات بھی گمبیر ہوچکے ہیں لوگوں نے جو گاڑیاں زیورات زمینین بیچ کر ادھار یا قسطوں میں لی ہوئی تھیں انکی معاشی حالت دگرگوں ہوچکی ہے ایک طرف قرض دار تو دوسری طرف بچوں کی بھوک ان کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہے بارڈر کی بندش پر آج بھوک کے ستائے ہوئے خواتین نے بھی باہر نکل کر روڑ بلاک کردیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں سرحدی عوام کے جائز مسائل کو نظر انداز نہ کریں یہ خالصتاً انسانی زندگیوں کا مسلہ ہے اور انسان اس وقت زندہ رہ سکتا ہے جب اسے کھانے پینے کے لیے کچھ میسر ہوتا ہے بارڈر بند ہونے کی صورت میں لوگ مٹی کھاکر تو زندہ نہیں رہ سکتے ایرانی حکام بھی انسانی ہمدردی کے طور پر بارڈر کھول دے تاکہ مشکلات میں گرے ہوئے سرحدی عوام بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی ممکن بناسکیں