لسبیلہ میں سیلابی ریلوں نے جہاں گوٹھوں کے گوٹھ میدانوں میں تبدیل کردیئے
اوتھل(ڈیلی گرین گوادر) لسبیلہ میں حالیہ شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلابی ریلوں نے جہاں گوٹھوں کے گوٹھ میدانوں میں تبدیل کردیئے۔ وہاں وزیراعظم کے دورہ لسبیلہ کی منسوخی سے سیلاب زدگان کو مایوسی ہوئی حب برج سمیت جہاں اوتھل، بیلہ، لاکھڑا تحصیلوں کا تقریباً 90 فیصد انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا اور زمینداروں کی کروڑوں روپے کی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔لوگوں کا کاروبار زندگی ٹھپ ہوکر رہ گیا۔جس میں رابطہ سڑکیں، پل، دیہی علاقوں کے سکولز، رورل ہیلتھ سینٹرز شامل ہیں۔تاحال کئی لوگ ابھی تک امداد کے منتظر ہیں۔حالیہ آنیوالے تباہ کن سیلاب کے بعد متاثرہ انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے حوالے سے اقدامات انتہائی سست روی کا شکار ہیں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی طرف سے لسبیلہ کو آفت زدہ قرار دینے کے بھی ثمرات نظر نہیں آئے۔ "کے الیکٹرک ” نے بھی زیادہ بل بھیج دیئے۔حکومت کے بلند بانگ دعوے اور مطلوبہ وسائل کی فراہمی میں کسی قسم کوتاہی نہ کرنے کا اعلانات بھی کئے گئے تھے۔ مگر تاحال عملاً اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے لسبیلہ کے طول و عرض میں تباہ شدہ انفراسٹرکچر جوں کے توں پڑے ہیں۔ متاثرین کی مدد میں سب سے زیادہ کردار پاک فوج، نیوی،پاک کوسٹ گارڈز،ایف سی کا رہا۔جنہوں نے دن رات ریلیف کا کام کرکے لوگوں کی مدد کی۔ہیلی کاپٹر گرنے سے پاک فوج کے 6 افسران شہید بھی ہوئے۔بلا ہو کراچی کی مختلف فلاحی تنظیموں کا جنھوں نے جہاں تک ان کی پہنچ تھی لوگوں کو راشن،ٹینٹ اور میڈیکل کیمپ لگا کر ریلیف دیا۔جب کہ سفید پوش لوگ جو ایک امید و آس لگائے بیٹھے تھے کہ کہ انتظامیہ ان کی اشک شوئی کرے گی۔لیکن وہ امید ہی لگائے بیٹھے رہے۔سرکاری امداد حسب معمول ان لوگوں کو ملی جن کو ہر سیلاب یا آفت میں کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔جب کہ حقیقی متاثرین آج بھی بے یار و مدد گار بیٹھے ہیں۔جب کہ جن لوگوں کے پاس کچھ جمع پونجی تھی انہوں نے تو اپنے آشیانے بنانے شروع کردئیے ہیں۔لیکن غریب اور دور دراز علاقوں کے متاثرین آج بھی حکومت سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔جن کے گھر، مال متاع، مویشی،زندگی بھر کی جمع پونجی سیلابی پانی کی نظر ہوگئے۔لسبیلہ سے اس وقت ایک صوبائی وزیر سمیت تین رکن صوبائی اسمبلی، ایک ممبر قومی اسمبلی اور دو سینیٹر ہیں۔لیکن سوائے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان، اقلیتی ایم پی اے مکھی شام لعل لاسی کے سوا کسی نے متاثرہ علاقوں کا دورہ تک نہیں کیا۔ جام گروپ اور جے یو آئی کے اقلیتی ایم پی اے مکھی شام لعل لاسی اور اقلیتی مقامی سماجی تنظیموں اور اقلیتی مخیر حضرات نے اپنے تہیں لوگوں کی مدد کی۔لیکن سینٹ میں دھواں دار تقریریں کرنے والے سینیٹر دھنیش کمار پلیانی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سینیٹر واجہ محمد قاسم رونجھو جو کہ کاروباری شخصیات ہیں،لیکن انہوں نے بھی اوتھل، بیلہ،لاکھڑا کی یاترا تک کرنا گوارہ نہ کیا۔ پھر سیلاب زدگان کو وزیراعظم پاکستان کے مجوزہ دورے سے ایک امید بندھی کہ اب ان کی مشکلات، پریشانیوں کا مداوا ہوگا لیکن سب سے زیادہ مایوسی لوگوں کو اس وقت ہوئی جب اچانک وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے موسم کی خرابی کے سبب اپنا دورہ منسوخ کردیا۔ دورے کی تمام تیاریاں مکمل تھیں۔ حالیہ آنیوالے تباہ کن سیلاب کے بعد متاثرہ انفرا سٹر کچر کی بحالی کے حوالے سے اقدامات انتہائی سست روی کا شکار ہیں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی طرف سے بلند بانگ دعوے کئے گئے اور مطلوبہ وسائل کی فراہمی میں کسی قسم کوتاہی نہ کرنے کا اعلانات بھی کئے گئے ہیں مگر تاحال عملاً اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیاجسکی وجہ سے لسبیلہ کے طول و عرض میں تباہ شدہ انفراسٹرکچر جوں کے توں پڑے ہیں۔ سیلاب نے جہاں جانی نقصا ن کیا وہیں بڑے پیمانے پر نجی املاک کو بھی بہا لے گیا تاہم ابھی تک سیلاب سے تباہ شدہ انفراسٹر کچر کی بحالی کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کام نظر نہیں آرہا ہے جبکہ دوسری طرف سیلاب سے متاثرین کی پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔آمدورفت کا نظام درہم برہم ہونے کی وجہ سے لوگوں کو سفر کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہیاسطرح دوبارہ مون سون کے نئے اسپیل کی آمد آمد ہے۔جس کے بعد سیلابوں کا نیا سلسلہ شروع ہونے کا خدشہ ہے۔ ان حالات میں عوامی سطح پر مایوسی کا اظہار کرنا بالکل غیر متوقع اور بلا وجہ نہیں ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی بحالی میں غیر ضروری تاخیر اور نتیجتاً عوام کی مشکلات اور مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے۔ متاثرین کی بحالی وفاقی،صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کے لئے بھی ایک چیلنج بن چکی ہیحکومت متاثرین کی بحالی کے لئے جن کے گھر پانی میں بہہ گئے ہیں۔فوری اقدامات کرے تاکہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے