بلوچ مسئلہ سیاسی ہے حل صرف مذاکرات ہیں، ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ

گوادر (ڈیلی گرین گوادر) نیشنل پارٹی بلوچ قومی تشخص پر کبھی بھی سودے بازی نہیں کرے گی، بلوچ مسئلہ سیاسی ہے حل صرف مذاکرات ہیں۔ طاقت اور بندوق کے زور پر مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ ڈھائی سالہ دور حکومت میں کوئی غلط کام نہیں کیا جس سے شرمندگی ہو۔ صوبائی حکومت بیڈ گورنس کا مجموعہ ہے۔ سرکاری نوکریاں برائے فروخت ہیں۔ افسوس قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتیں نااہل صوبائی حکومت کا دست بازو بن چکے ہیں۔ گوادر پورٹ پر پہلا حق مقامی لوگوں کا ہونا چاہیے۔ اگر بطور وزیر اعلی میرے سی پیک منصوبے پر کوئی بھی دستخط موجود ہوں تو سیاست سے دستبردار ہوجاونگا۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے گوادر پریس کلب کے پروگرام حال حوال میں بطور مہمان خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی جمہوری، پارلیمانی طرز سیاست اور جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ ہماری پارٹی کا یہی مطمع نظر ہے کہ تمام وحدتوں کو برابری کا درجہ دیا جائے لیکن آج کل ملک کے جو حالات ہیں اس میں جمہوری قدروں کا احترام نہیں کیا جارہا ملک اس وقت شدید معاشی اور سیاسی بحران کے نرغے میں ہے۔ دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آٹھ کھڑا ہوا ہے عام آدمی معاشی مسائل کا شکار اور غریب کے لئے ایک کلو آٹا خریدنا محال بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ اور میڈیا کسی بھی جمہوری ریاست کا آئینہ دار ہوتے ہیں لیکن آج عدل کے حوالے سے جو مجموعی تاثر ہے وہ منفی ہے لوگ عدلیہ سے انصاف کی توقع نہیں رکھتے اور بادی انظر میں جاری فیصلوں کو طے شدہ فیصلہ قرار دیا جارہا ہے۔ جب کہ میڈیا کی آزادی پر بھی شب خون مارا جارہا ہے اور آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی کی جاتی ہے جو جمہوری ریاست کے الٹ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت صوبے کے عوام کو مشکل حالات سے نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتی یہ بیڈ گورنس کا مجموعہ بن چکا ہے سرکاری ادارے تباہ کردیئے گئے ہیں اور سرکاری نوکریاں ہاتھوں ہاتھ فروخت کی جارہی ہیں قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتیں نااہل صوبائی حکومت کا دست بازو بن گئے ہیں افسوس کہ قوم پرست بھی صوبائی حکومت کی ایما پر سرکاری ملازمتیں فروخت کررہے ہیں جس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب نے بلوچستان میں جو تباہی پھیلائی ہے وہ ہولناک ہیں غریب لوگوں کے گھر اور مال و مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں اور بہت سے لوگ جان سے بھی گئے ہیں لیکن صوبائی حکومت سیلاب متاثرین کی اشک شوئی اور امداد میں تساہل کا مظاہرہ کررہی ہے اب تک سیکڑوں سیلاب متاثرین امداد کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت تھی اور اس وقت آواران میں زلزلہ آیا تھا تو میں نے آواران میں جاکر وہاں بارہ دن تک کیمپ کیا۔ سات ارب روپے کی خطیر رقم سے متاثرین کی بحالی کامنصوبہ مکمل کیا گیا۔ متاثرین کو گھر بناکر دیئے گئے اور سولر سسٹم بھی فراہم کیا گیا لیکن آج کی صوبائی حکومت سے ایک جھاو جیسا گاؤں نہیں سنبھالا جاتا وہ صوبے بھر کا خیال کیسے رکھے گا۔ انہوں نے کہاکہ گوادر کی مشہوریت کے لئے دن رات کوششیں ہورہی ہیں لیکن یہاں کے ڈیم پانی میں وافر مقدار میں پانی کی موجودگی کے باوجود گوادر پیاساہے اور صوبائی حکومت کی بیڈ گورنس کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کو پانی کی سپلائی کے لئے ڈیزل کے پیسے ختم ہوچکے ہیں۔ ایک طرف گوادرنے بین الاقوامی شہرت حاصل کیا ہے لیکن گوادر میں بجلی دستیاب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں 1993 سے لے کر 1996 تک وزیر تعلیم تھا تو میں نے ہر دیہات میں اسکول کھولے لیکن آج ان اسکولوں میں کوئی پڑھانے والا موجود نہیں۔ گوادر کو گزشتہ طوفان کے بعد آفت زدہ علاقہ قرار دیا گیا تھا لیکن آج تک متاثرین کو ریلیف نہیں ملا ہے۔ غیر قانونی ٹرالرنگ میں صوبائی حکومت کی منشاء شامل ہے اور سمندر کو ٹھیکے پر ٹرالرز مافیا کے حوالے کرکے غریب ماہی گیروں کے روزگار کو تباہ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ گوادر پورٹ کو نوگوایریا بنایا گیا ہے ہم گوادر پورٹ کے خلاف نہیں ہم نے بہت کوشش کی کہ گوادر پورٹ کا انتظام صوبائی حکومت کے حوالے کیا جائے لیکن ہماری اس کوشش پر دیگر سیاسی جماعتوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ مرکزی حکومت کو ہمیں یہ باور کرانا ہوگا کہ ہماری قومی تشخص کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ پر پہلا حق مقامی لوگوں کا ہے۔ آمدنی کا خطیر حصہ گوادر کے لئے مقرر کیا جائے اور روزگار کے لئے مقامی لوگوں کو اولین ترجیح دی جائے اگر ہمارے مطالبات نہیں مانے گئے تو ہم گوادر پورٹ کو تسلیم نہیں کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی بلوچ ساحل اور وسائل کی نگہبان جماعت ہے۔ ہم نے نہ بلوچ وسائل کا سودا کیا ہے اور نہ اس پر سمجھوتہ کرینگے۔ اگر سی پیک منصوبے پر بطور وزیر اعلٰی میرا ایک بھی دستخط موجود ہے تو میں سیاست چھوڑنے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سیندک اور ریکوڈک منصوبوں پر کھلی آفر دی گئی لیکن میں نے اسے ٹھکرایا کیونکہ بلوچ وسائل پر سودے بازی کو غداری سمجھتے ہیں جس پر ہمارا ایمان بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع گوادر پر گزشتہ بیس برسوں سے ایک ہی قوت مسلط چلا آرہا ہے اگر یہاں کے نمائندوں کو اسکول، اسپتال اور روزگار سے کوئی سروکار نہیں تو اس کے خلاف عوام کو سوچنا ہوگا اور ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہوگا جو عوام کے مسائل حل کرے۔ انہوں نے کہا کہ تربت کے مقابلے میں گوادر کی بہت زیادہ اہمیت ہے ہماری حکومت نے یہاں پر میرین ڈرائیو اور گوادر ایئرپورٹ کے عوامی نوعیت کے منصوبے منظور کرکے مکمل کئے اگر ہمیں دوبارہ حکومت ملا تو گوادر کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دینگے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی اصولی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے بلوچ قومی تشخص، حق حاکمیت میں کمی اور وسائل پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ ہم نے اپنے ڈھائی سالا دور میں عوامی خدمت کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی، صوبے بھر میں چھ یونیورسٹیاں اور تین میڈیکل کالجز قائم کرکے دیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی حکومت کے دوران بلوچستان کے مسئلہ کے حل کے لئے جامع انداز میں کوشش کی ڈائیلاگ شروع کئے اور مذاکرات کی راہ ہموار کی لیکن آج مذاکرات کے دروازے بند کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ خالصتا سیاسی ہے جس کا حل ڈائیلاگ اور مذاکرات ہیں طاقت اور بندوق سے بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس موقع پر گوادر پریس کلب کے صدر سلیمان ھاشم۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سکریٹیری جان محمد بلیدء۔ مرکزی رھنماھان جسٹس (ریٹائرڈ) شکیل احمد بلوچ۔ اشرف حسین اور ابوالحسن بھی موجود تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے