حالیہ بجٹ گزشتہ بجٹ کی طرح الفاظوں کے ہیر پھیر کے سوا کچھ نہیں ، نیشنل پارٹی

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے اجلاس 22اور 23جون بمقام کوئٹہ میں مندرجہ ذیل سیاسی فیصلے کئے گئے۔اجلاس میں وفاقی بجٹ برائے سال 22-23کو نیشنل پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ حالیہ بجٹ گزشتہ بجٹ کی طرح الفاظوں کے ہیر پھیر کے سوا کچھ نہیں جو ہر سال آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ سامنے لاتا ہے اس بجٹ میں اقتصادیات کو بہتر کرنے اور بہتر معاشی پالیسیوں کی جانب کوئی پیش قدمی نظر نہیں آرہی ہے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مرضی و منشاء کو سامنے رکھتے ہوئے بجٹ ترتیب دیا گیا ہے یاد رہے کہ ملک کی مجموعی قومی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ مالیاتی اداروں کے قرضوں اور سود میں چلا جاتا ہے جبکہ دوسرا بڑا حصہ دفاعی اخراجات کی غیر ترقیاتی مد میں چلا جاتا ہے جبکہ دیگر غیر ترقیاتی اخراجات کو محدود کرنے کے حوالے سے نہ کوئی اقدام اٹھایا گیا اور نہ پالیسی نظر آ رہی ہے ان غیر ترقیاتی اخراجات کو نکالنے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس ملک کو چلانے کے لیے مزید بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے سخت شرائط پر قرضہ حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ ملک کی غلط معاشی اور سیاسی پالیسیاں ملکی معیشت کی تباہی کے اصل ذمہ دار ہیں ملک کی تباہی کے اصل محرکات غلط معاشی حکمت عملی اور غلط فنانشل مینجمنٹ کا ہونا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کا جینا محال ہوگیا ہے ملازمین کے تنخواہوں میں اضافہ مہنگائی کے تناسب کے برخلاف ہے کھانے پینے کی اشیاء، پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کے ساتھ ضروریات زندگی کی قیمتوں میں روز افزوں اضافے نے مسائل و مشکلات میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔ پاکستان کو ایک سیکورٹی اسٹیٹ بنا دیا گیا ہے قومی سلامتی کو سب سے بڑا چیلنج سمجھ کر معاشی و سیاسی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں جس کے منفی اثرات پورے سماج پر اثر ڈال رہے ہیں جب تک حکمرانوں کی مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوگا بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی ہے مائینڈ سیٹ کو بدلنے کی ضرورت ہے اس ملک کو خطرہ بیرونی دنیا سے نہیں اندر سے ہے، معاشی تنزلی، غربت، انتہاہ پسندی اور غلط سیاسی و معاشی فیصلوں کی وجہ سے پاکستان کا دنیا میں وقار متاثر ہوا ہے بین الاقوامی دنیا ہم پر اعتماد نہیں کرتا ہے پاکستان کو سیکورٹی ریاست سے فلاحی ریاست بنانے کی ضرورت ہے ہمسایوں کے ساتھ بہترین تعلقات، تجارتی سرگرمیاں، تمام بین الاقوامی دوطرفہ معاہدوں کی پاسداری اور دفاعی اخراجات میں کٹوتی ہی اس ملک کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہوسکتا ہے۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نیشنل پارٹی تمام مشکلات و مسائل کے باوجود پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جمہوری سیاسی جدوجہد اور اتحاد کا حصہ رہے گا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ایک وسیع سیاسی و جمہوری اتحاد ہے جس نے ملک میں صاف و شفاف انتخابات، پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی سمیت ملک کے سنگین سیاسی مسائل کو اپنے پروگرام کا حصہ بنایا۔ پاکستان کے انتخابی عمل میں خفیہ اداروں کی مداخلت کو ختم کرنے اور بااختیار الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو مکمل طور پر پی ڈی ایم کی حکومت سمجھنا درست نہیں ہے کیونکہ حالیہ حکومت کے قیام میں ان سیاسی پارٹیوں کا اہم کردار ہے جو اس اتحاد کے حصے نہیں تھے بلکہ حکمران جماعت کے اتحادی تھے اور حکمران جماعت کے اندرونی انتشار اور غلطیوں کے سبب حالیہ حکومت کی تشکیل ممکن ہوئی ہے۔ نیشنل پارٹی موجودہ حکومت کی غلطیوں کا بوجھ اپنے سر لینے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے ہم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سیاسی اتحاد میں تھے اور رہیں گے حکومت سے نیشنل پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے قیام، صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد، جمہوریت کی استحکام، پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی سمیت لاپتہ سیاسی کارکنوں کی بازیابی اور مہنگائی و بے روزگاری کے خلاف نیشنل پارٹی اپنا سیاسی کردار ادا کرتا رہے گا، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مذید مستحکم بنانے کی ضرورت ہے ملک میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات اور حلقہ بندیوں کی تشکیل میں الیکشن کمیشن کی بے ضابطگیاں کھل کر سامنے آگے ہیں۔الیکشن کمیشن ووٹرز لسٹوں کی تشکیل نادرا سے کرانے اور انتخابی عمل میں انتظامیہ کی تاحال محتاج نظر آرہی ہے الیکشن کمیشن کے پاس افرادی قوت اور وسائل کی کمی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہورے ہیں انتخابی عمل میں انتظامیہ کی برائے راست حصہ داری انتخابی عمل کو صاف و شفاف بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جب تک الیکشن کمیشن کے پاس وسائل و افرادی قوت نہیں ہوگی تب تک انتخابی عمل ایسی طرح صوبائی اور وفاقی حکومت کے رحم و کرم پر ہوگا، اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اس وقت ملک کا سب سے اھم قومی اور سیاسی مسلہ جبری طور پر لاپتہ سیاسی کارکنوں کا ہے ملک بھر میں لاپتہ افراد کی رہائی اور انھیں عدالتوں میں پیش کرنے کی تحریک زور پکڑ رہی ہے خفیہ اداروں کی سیاسی عمل میں مداخلت نے اس مسلے کو اور سنگین شکل دی ہے ملک کے آئین و قانون سے محاورہ سرکاری ایجنسیاں محاورے قانون و آئین عمل کا حصہ ہیں اور مخصوص ایجنڈے پر درپردہ کام کررے ہیں۔ جس سے سیاسی حکومتوں کی بے بسی کھل کر سامنے آرہی ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی قیادت اور حکومت سے جو امیدیں اور توقعات وابستہ تھے دم تھوڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں پاکستان میں سیاسی مسائل کو طاقت کی زور پر حل کرنے کے روش نے سیاسی و قومی مسائل کی شدت میں اضافے کا سامان بن رہے ہیں۔ بلوچستان کا اس وقت سب سے اہم سیاسی مسلہ لاپتہ سیاسی نوجوانوں کی بازیابی کا ہے یہ مسلہ بنیادی طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کا حل صرف سیاسی مذاکرات سے نکل سکتا ہے طاقت کے استعمال نے اس مسلے کو مزید گھمبیر اور پیچیدہ بنا دیا ہے حکومت اور ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی معاملات کو سیاسی مذاکرات اور گفت و شنید کی بنیادوں پر حل کرنے کا راستہ نکالیں بلوچستان کے طلبا کو کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور سمیت پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں حراساں کرنے اور بلاجواز گرفتار اور لاپتہ کرنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ زور پکڑتا جارہا ہے جس سے مسائل مزید خراب ہوتے جارہے ہیں نیشنل پارٹی تمام لاپتہ سیاسی کارکنوں کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتا ہے،اجلاس میں فیصلہ کیا کہ نیشنل پارٹی ایک جمہوری سیاسی قومی جماعت ہے جو ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لیے جمہوری حکمت عملی کے تحت سیاسی جدوجہد میں اپنا سیاسی کردار ادا کررہا ہے ملک میں جمہوریت کے ساتھ پارٹی کے اندر جمہوریت کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے پارٹی کے اداروں میں جمہوری عمل کو پروان چڑھانے کی اشد ضرورت ہے اندرون پارٹی خود احتسابی کے عمل کے فروغ کے لیے نیشنل پارٹی نے ایک بااختیار احتسابی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو اندرون پارٹی کرپشن کی روک تھام اور ملوث افراد کے خلاف انکوائری کرنے اور کاروائی کا اختیار رکھتا ہے یہ عمل پارٹی کے اندر کرپشن کی روک تھام اور پارٹی میں جمہوری کلچر کے فروغ کیلئے عمل میں لایا گیا ہے،اجلاس میں فیصلہ کیا کہ نیشنل پارٹی سماج میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھانے اور سماج کے تمام متاثرہ افراد کے حقوق کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہے سماج میں ورکنگ وومن، ڈس ایبل افراد اور ٹرانس جینڈر کے سماجی حقوق کے تحفظ میں کوئی کسر فروگزاشت نہیں کررے گی بلکہ ہر فورم پر ان کے حقوق کا دفاع کرے گی اور اس کو یقینی بنانے میں بھرپور کردار ادا کرے گی،اجلاس میں فیصلہ کیا کہ پارٹی ترجمان کی اشاعت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور تمام ساتھیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں تنظیمی و سیاسی رپورٹوں اور مضامین کی بروقت ترسیل کو یقینی بناتے ہوئے فنڈز پر خصوصی توجہ مرکوز رکھیں،اجلاس میں فیصلہ کیا کہ نیشنل پارٹی کے خواتین ونگ کی کارکردگی کو مذید بہتر اور فعال بنانے کی ضرورت ہے خواتین کے معاشی و سماجی مسائل پر خصوصی توجہ دینے اور ورک پلیس پر ہونے والے حراسمنٹ اور بے جاہ تشدد کے خلاف اور ان کے حق روزگار کے لیے خصوصی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ پارٹی میں خواتین ونگ کے لیے بہتر تنظیمی ڈھانچہ بنانے کی بھی ضرورت ہے فعال و متحرک خواتین تنظیم پارٹی میں ریڈ کی ھڈی کی حثیت رکھتی ہے،اجلاس میں فیصلہ کیا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار بلوچستان و بلوچ طلبا کی نمائندہ سنجیدہ طلبا آرگنائزیشن کے طور پر ابر کر سامنے آرہا ہے بلوچ طلبا میں انتہاہ پسندی کے رجحانات کے برخلاف سنجیدہ سیاسی جمہوری حکمت عملی کو پروان چڑھا رہی ہے نیشنل پارٹی کے تمام فورمز اور تنظیموں کی سیاسی و قومی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار کو مضبوط و مستحکم بنائیں،اجلاس میں فیصلہ کیا کہ معدنیاتی وسائل سے بھرپور بلوچستان کے عوام بھوک پاس اور بے شمار بیماریوں میں مبتلا ہیں بلوچستان کے وسائل پر وفاقی حکومت، چین اور بے شمار طاقتور مافیا اور افراد قبضہ کئے ہوئے ہیں جس سے بلوچستان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہورہا ہے سالانہ 22 لاکھ میڑک ٹن کوئلہ بلوچستان سے نکلتا ہے سیندک کا معاہدہ 2012 میں ختم ہوا سیندک سے بلوچستان کو صرف دو فیصد رائلٹی دیا جارہا ہے جبکہ حقوق آغاز بلوچستان کے معاہدے کے تحت 50 فیصد حصہ بلوچستان کو ملنا چاہیے، گیس و آئل کی پیداوار میں بلوچستان 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت 50 فیصد کا حصہ دار ہے ریکودیک کاپر اینڈ گولڈ کا حالیہ معاہدہ ابھی تک صیغہ راز ہے جہاں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان کے تمام اہم نعادنیاتی معاہدے کھٹ پتلی حکومتوں کے ہاتھوں کئے جاتے ہیں جس میں ریکوڈک، سیندک، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل معاہدے شامل ہیں جن میں عوام کے مفادات کے برخلاف کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ حاصل ہے ریکودیک کاپر اینڈ گولڈ کا معاہدہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ بلوچستان میں مجموعی طور پر 38 قسم کے منرل نکلتے ہیں لیکن ان سے بلوچستان کے عوام کو کچھ بھی حاصل نہیں ہورہا ہے این ایف سی سے جو حصہ بلوچستان کا آتا ہے وہ بھی فنانشل مینجمنٹ نہ ہونے اور پلانگ نہ ہونے کے سبب ضائع کئے جاتے ہیں گزشتہ 16 سالوں کے دوران مجموعی طور پر 120 ارب روپے لیپس ہوئے۔ بلوچستان میں بھی ایک بہت بڑا مسلہ غلط پلاننگ، فانشل مینجمنٹ کا فقدان اور کرپشن کی وجہ سے ہے بلوچستان میں ان مسائل پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے