جنگلات اور ماحول کا تحفظ ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے، ثمینہ ممتاز
کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان ماحول دوست خطہ ہے اس کے قدرتی ماحول کا تحفظ انسانیت کی بقاء کے لئے ناگزیر ہے۔ ان خیالات کا اظہار سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ایک وفد سے ملاقات میں کیا۔انہوں نے کہا کہ قوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این انوائرنمنٹ کے زیر اہتمام رواں سال اس دن کا عنوان صرف ایک زمین رکھا گیاتھا۔ماحولیات کے تحفظ اور اس کی حفاظت کا مقصد دنیا میں ماحول کو پہنچنے والے نقصانات کی طرف توجہ دلانا اور ان کے سدباب کے لیے کوششیں کرنا ہے۔اس وقت سب سے بڑا مسئلہ زمین کے موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔بدقسمتی سے پاکستان اس وقت کلائمٹ چینج کے نقصانات سے متاثر ہونے والے پہلے 10 ممالک میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگلات اور ماحول کا تحفظ ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے ماحول کی آلودگی صرف درختوں کی شجر کاری کر کے ہی نہیں کم کی جاسکتی ہے بلکہ اس کے علاوہ کئی عوامل ایسے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو بہتر بنا سکتے ہیں۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کے ماحول سے بالکل بے خبر زندگیاں گزار رہے ہیں ما۔حولیاتی تحفظ کے عالمی اداروں کی بار بار وارننگ کے باوجود اس طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے اوزون کی تہہ ختم ہوتی جارہی ہے جس سے درجہ حرارت میں حد درجہ اضافہ ہوتا جارہا ہے اوزون کی حفاظت ہم اپنے ماحول کو درست کر کے کر سکتے ہیں اس کے لئے ہم سب کو ایس او پیز پر عمل کرنا ہوگا۔فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں اور شہروں میں گاڑیوں کا دھواں فضائی آلودگی کے سب سے بڑے اسباب ہیں۔سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہمارے گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئے ہیں۔ جب گلیشیئرز پگھلتے ہیں تو دریاں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوجاتا ہے اورنتیجتاً آس پاس کی آبادیوں میں سیلاب آجاتا ہے جس سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔یہ گلیشیئرز ملک میں پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ کرتے ہیں، لیکن جب بہت سا پانی ایک ساتھ آجاتا ہے تو وہ اسٹور نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے پہلے سیلاب آتا ہے، اور بعد میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق 2040 ء تک پاکستان کی دو تہائی آبادی پانی کی قلت کا شکار ہوسکتی ہے۔کلائمٹ چینج کا اثر ہماری زراعت کو بھی بے حد نقصان پہنچا رہا ہے۔ بارش کے موسم میں بارش نہ ہونا اور غیر متوقع بارشوں اور گرمی سردی کے بدلتے پیٹرنز کی وجہ سے ہماری فصلوں کی پیداوار کم ہورہی ہے جس سے غذائی قلت کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف اقسام کی صنعتوں،معیشتوں، اینٹوں کے بھٹوں اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے مالکان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلا ف جنگ میں قدم بڑھانے ہوں گے تاکہ پاکستان سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہو سکے اور اوزون کی تہہ کو بچایا جاسکے اس سے نہ صرف ہمیں فائدہ ہوگا بلکہ اس کا اثر ہمارے ارد گرد کے موسمیاتی حالات پربھی پڑے گا۔مختلف خطوں میں بارش نہ ہونے کا سبب بھی ماحولیاتی آلودگی ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں بارش ہونا یا تو کم ہو گئی ہے یا بالکل ہی ختم ہو گئی ہے جو کہ ایک خطرناک بات ہے۔ سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کہا کہ پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آبادی والے خطے میں واقع ہے فضائی آلودگی اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ان ممالک میں فضائی آلودگی روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور یہی وہ خطہ ہے جس میں تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور موسموں میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان شدید فضائی آلودگی کا شکار ہے اور یہاں پھیپھڑوں اور گلے کی مختلف قسم کی بیماریاں دن بہ دن بڑھتی جارہی ہیں فضائی آلودگی ختم کرنے کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اس سے نہ صرف ارد گرد کا ماحول خوشگوار و صا ف ستھرا ہو گا بلکہ آلودگی پر قابو پانے میں بھی بھرپور مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا تقریباً آدھا یعنی 43 فیصد حصہ ہے اور اس آدھے پاکستان کے ماحول کے تحفظ کا عہد ہم سب کو کرنا ہوگا بلوچستان کا اکیس فیصد حصہ صحرائی ہے جبکہ دیگر علاقے پہاڑوں، ساحلی پٹی قدرتی جنگلات سے ڈھکا ہے بلوچستان کے سب سے بڑے شہر کوئٹہ کے چاروں اطراف قدرتی حسن موجود ہے جو انسانی فطرت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ہمیں چاہئے کہ اس قدرتی حسن کی حفاظت کریں اور اس میں مزید اضافہ کیا جائے ساتھ ساتھ بلوچستان کے ان علاقوں میں جہاں درخت لگائے جاسکتے ہیں وہاں ضرور درخت لگائے جائیں اور اس کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کوبھی اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگاتاکہ اوزون کی تہہ کو بچایا جاسکے اور آنے والے دنوں میں موسمیاتی عوامل کا مقابلہ کیا جاسکے۔