یونیورسٹی آف مکران کے قیام میں میرا خون پسینہ اور سالوں کی محنت شامل ہے،میر اسداللہ بلوچ
پنجگور (این این آئی) صوبائی وزیر زراعت و امداد باہمی میر اسداللہ بلوچ نے کہا کہ یونیورسٹی آف مکران کے قیام میں میرا خون پسینہ اور سالوں کی محنت شامل ہے یہ وہ ادارہ ہے جس کا خواب میں نے زمانہ طالب علمی میں دیکھا تھا اور میرے وڑن میں شامل تھا کہ اپنے معاشرے میں ایک ایسا ادارے کا قیام عمل میں لاؤں جس سے پنجگور سمیت مکران کی آنے والی نسلیں مستفید ہوسکیں اور دن رات کی کوششوں کے بعد بالآخر 2019 کو پنجگور میں یونیورسٹی کیمپس کا قیام عمل لایا اس کے بعد پہلی فرصت میں اس ادارے کو کالج میں تیار بلڈنگ فراہم کی تاکہ بنا وقت ضائع کیے یہ ادارہ اپنی خدمات فراہم کرنا شروع کرے،ان خیالات کا اظہار صوبائی وزیرزراعت،وامداد باہمی میر اسداللہ بلوچ نے نمائندہ ایکسپریس سے ایک خصوصی انٹریو کے دوران کیا انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران جب ملک معاشی بحران سے گزر رہا تھا اس وبا کے باوجود یونیورسٹی کیمپس کو بلوچستان گورنمنٹ سے کروڑوں روپے کے بجٹ فراہم کیے تاکہ یہ ادارہ اپنے پیروں پے کھڑا ہوسکے اور اس کیمپس میں زیر تعلیم پہلے داخلہ لینے والے 200 طلباء وطالبات کے تمام فیسوں کو بلوچستان گورنمنٹ کی طرف سے فری کیا اور ساتھ ہی تمام طلباء کو لیپ ٹاپس بھی فراہم کیے تاکہ وہ وقت جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے معیاری تعلیم حاصل کرکے ملک و قوم کی خدمت کرسکیں، میرا خواب صرف کیمپس کے قیام تک محدود نہیں تھا بلکہ ایک مکمل یونیورسٹی کا قیام تھا اس خواب کی تکمیل کیلئے میں نے انتھک کوششیں کی اور بالآخر مجھ سمیت پورے مکران کو خواب یونیورسٹی آف مکران کی صورت میں پورا ہوا، یہ پہلی دفعہ تھا کہ ایک کیمپس اپنے بننے کے ڈیڑھ سال بعد ایک مکمل یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرگیا اس کے ساتھ ہی یونیورسٹی آف مکران کو پنجگور میں دو ہزار ایکڑ زمین بھی فراہم کرلیا، یہی نہیں بلکہ اس ادارے کیلئے بلوچستا ن گورنمنٹ کی طرف سے 250 کروڑ روپے کا بجٹ بھی مختص کیا تاکہ پنجگور میں جدید طرز کی ایک یونیورسٹی تعمیر ہوسکے جو علم و عرفان کا مرکز ٹھہرے جس سے پنجگور سمیت مکران، واشک، بیسیمہ اور دیگر شہروں کے طلباء و طالبات فائدہ اٹھا سکیں، میر اسداللہ بلوچ نے مزید کہا کہ میرا خواب علم کے اس چراغ بلوچ کے ہر گھر تک پہنچانا ہے تاکہ بلوچ کا بچہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر قوم کی خدمت کرسکے یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس ادارے کے قیام اور اس کی تعمیر میں میری راہ میں بے شمار روکاوٹیں حائل کی گئیں اس کے خلاف سازشیں رچھائی گئی کہ اس کیمپس کے قیام کو متنازعہ بنایا جانے لگا کہ اس کیمپس کو ہم نے قائم کیا ہے مگر ان سازشی عناصر کے تمامتر پروپیگنڈے ناکام ہوگئے، میر اسداللہ بلوچ نے کہا حالیہ وائس چانسلر کی یونیورسٹی آف مکران میں تعیناتی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں تھی میرے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ اقدام اٹھایا گیا تاکہ میرے وڑن کو نقصان پہنچایا جائے لیکن میں اپنے بچے اور بچیوں کی عزت کے آگے دیوار بن کر کھڑا رہا کیونکہ ایک ایسا شخص جو بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل میں سرفہرست ہے اس کو مکران میں لاکر ایک اور موقع دیا جاتا مگر میں ہرگز ایک ایسے شخص کو یہاں پر مسلط کرکے ادارے کو یرغمال نہیں ہونے دوں گا اس لیے 21 جون کو جب سازش کے تحت اس شخص کو وائس چانسلر یونیورسٹی آف مکران تعینات کیا گیا تو میں اس تقرری کے آگے دیوار بن کر کھڑا رہا اور اسی تاریخ کو ہم نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے اس آرڈر کو کینسل کردیا جو نوٹیفیکیشن کی شکل میں موجود ہے اور آخرکار گورنر دس سے اس شخص کو وائس چانسلر کے عہدے سے ہٹاکر مکران کو نجات دلایا گیا مگر کچھ لوگ آج 23 تاریخ کو یہ واویلا مچا رہے ہیں کہ اس شخص کو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے سے ہٹایا جائے انہیں یہ نہیں معلوم کے 21 کو تاریخ کو ہونے والے نوٹیفیکیشن کو 21 تاریخ میں ہی منسوخ کردیا گیا تھا اور 22 تاریخ کو گورنر آفس سے شائع ہوا، میر اسداللہ بلوچ نے کہا کہ یونیورسٹی آف مکران میں ایک ایسے قوم دوست اور تعلیم دوست شخص کو وائس چانسلر ہے عہدے پر تعینات کرین گے جس کے دل میں مکران کے غریب اور نادار لوگوں کیلئے درد ہے اور جس کا خواب علم و تعلیم کی ترقی ہے۔