دنیا کا سب سے بڑا تیرنے والا شہر

مالدیپ(ڈیلی گرین گوادر) مالدیپ کے دارالحکومت مالے سے کشتی سے 10 منٹ کے سفر کی مسافت پر بحر ہند کے پانیوں میں ایک تیرنے والا شہر ابھر رہا ہے۔یہ شہر اتنا بڑا ہوگا کہ 20 ہزار افراد اس میں رہائش پذیر ہوسکیں گے۔اس شہر میں 5 ہزار تعمیراتی یونٹس بشمول گھر، ریسٹورنٹس، دکانیں اور اسکول وغیرہ موجود ہوں گے۔

مالدیپ کی جانب سے اولین تعمیراتی یونٹس جون 2022 کے آخر تک متعارف کرائے جائیں گے جبکہ 2024 میں وہاں لوگ رہنا شروع کریں گے۔یہ پورا شہر 2027 تک مکمل تعمیر کیا جائے گا۔اس حیرت انگیز منصوبے پر مالدیپ کی حکومت ڈچ ڈوک لینڈز نامی کمپنی کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔

مالدیپ کے دارالحکومت مالے سے کشتی سے 10 منٹ کے سفر کی مسافت پر بحر ہند کے پانیوں میں ایک تیرنے والا شہر ابھر رہا ہے۔یہ شہر اتنا بڑا ہوگا کہ 20 ہزار افراد اس میں رہائش پذیر ہوسکیں گے۔اس شہر میں 5 ہزار تعمیراتی یونٹس بشمول گھر، ریسٹورنٹس، دکانیں اور اسکول وغیرہ موجود ہوں گے۔

مالدیپ کی جانب سے اولین تعمیراتی یونٹس جون 2022 کے آخر تک متعارف کرائے جائیں گے جبکہ 2024 میں وہاں لوگ رہنا شروع کریں گے۔یہ پورا شہر 2027 تک مکمل تعمیر کیا جائے گا۔اس حیرت انگیز منصوبے پر مالدیپ کی حکومت ڈچ ڈوک لینڈز نامی کمپنی کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔

کوئن اولتھیوس نیدر لینڈز سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کا ایک تہائی رقبہ سطح سمندر سے نیچے ہے اور اسی وجہ سے وہ ہمیشہ پانی کے قریب رہے ہیں۔اسی باعث 2003 میں انہوں نے واٹر اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی، جو ایسی تعمیراتی کمپنی ہے جو پانی کے اوپر ہی تمام کام کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پانیوں پر تیرتے تعمیراتی منصوبوں میں دلچسپی بڑھی ہے۔ان کی کمپنی نے دنیا بھر میں اب تک 300 سے زیادہ پانیوں میں تیرتے گھر، دفاتر، اسکول اور طبی مراکز تعمیر کیے ہیں۔مگر مالدیپ کا منصوبہ اب تک کا سب سے بڑا ہے یعنی 5 سال کے اندر 20 ہزار افراد کے شہر کی تعمیر، جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔

اس شہر میں رہنے والے کہیں جانے کے لیے کشتیوں، سائیکل یا الیکٹرک اسکوٹرز کا سہارا لیں گے یا پیدل بھی گھوم سکتے ہیں۔اس شہر میں ایک گھر کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالرز سے شروع ہوگی۔یہ گھر بنیادی طور پر موڈیولر یونٹ ہوں گے، جن کو ایک مقامی شپ یارڈ میں تعمیر کرکے اس نئے شہر تک پہنچایا جائے گا اور وہاں زیرآب موجود کنکریٹ سے جوڑ دیا جائے گا۔شہر میں بجلی کے حصول کے لیے سولر انرجی سے مدد لی جائے گی جبکہ ائیر کنڈیشنرز کے متبادل کے طور پر گہرے پانی کی ٹھنڈک کو استعمال کیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے