بلوچستان میں خواتین سے متعلق مجوزہ قوانین کو موثر بنانے کیلئے "کٹ کاپی پیسٹ” کے بجائے زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا، ڈاکٹر ربابہ بلیدی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) اقوام متحدہ کے ادارے برائے ترقی نسواں نے خواتین سے متعلق رائج الوقت اور مجوزہ قوانین میں پائی جانے والی پیچیدگیوں اور خامیوں کو دور کرکے انہیں موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، یو این وویمن کے زیر انتظام جمعرات کو مقامی ہوٹل میں اراکین صوبائی اسمبلی، ججز، پولیس، وکلاء، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ، محکمہ سماجی بہبود اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی مشاورتی نشست منعقد ہوئی جس میں رائج الوقت اور مجوزہ مسودہ قوانین پر عمل درآمد اور خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان میں بہتری اور ترامیم کے لئے تجاویز مرتب کی گئیں پروگرام کے آغاز پر یو این وویمن بلوچستان کی سر براہ عائشہ ودود نے مشاورتی نشست کے اغراض و مقاصد بیان کئے اور قوانین تک عورتوں کی رسائی میں حائل مشکلات اور رکاوٹوں پر روشنی ڈالی مشاورتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری قانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین سے متعلق مجوزہ قوانین کو موثر بنانے کے لئے "کٹ کاپی پیسٹ” کے بجائے زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا اور ان قوانین کا موازنہ خواتین کو درپیش مسائل سے کرنا ہوگا بلوچستان میں ابتک برطانوی دور حکومت کے کئی قوانین چل رہے ہیں جبکہ اکثر قوانین پر عمل درآمد کا فقدان ہے قوانین کی تشکیل کے وقت ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ضلعی سطح پر خواتین کی پڑھی لکھی باشعور افرادی قوت کتنی ہے جو ان قوانین پر عمل درآمد کے امور میں حصہ ڈال سکے رائج الوقت قوانین پر عمل درآمد کے فقدان کی وجہ مسودہ قانون اور زمینی حقائق کا تضاد ہے ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے کہا کہ خواتین کسی بھی پوزیشن پر ہوں انہیں معاشرے میں امتیازی رویوں کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے اس لئے خواتین نے پوری محنت اور تندہی سے اپنے حقوق اور تشخص کی اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی مسودہ قانون اسٹینڈنگ کمیٹی میں جانے سے قبل ضروری ہے کہ اس ضمن میں اوئیرنیس کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز مجوزہ قوانین کی ہیت سے بخوبی آگاہ ہوں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین کو ترکہ میں حصہ دینے کے لئے علیحدہ سے قانون بنانے پر غور کیا جاررہا ہے مشاورتی نشست میں صوبائی خاتون محتسب صابرہ اسلام، نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی ریجنل ہیڈ پروفیسر ڈاکٹر فرخندہ، کمیشن آن اسٹیٹس آف وویمن کی چئیرپرسن فوزیہ شاہین، ڈائریکٹر جنرل سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ مسرت شاہین، اے آئی جی جینڈر ارسلہ سلیم،ماہر قانون جسٹس(ریٹائرڈ) کیلاش ناتھ کوہلی، سابق سینٹر روشن خورشید بروچہ، سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی، پروفیسر شاہدہ حبیب، اسپیشل مجسٹریٹ ظل ہماء عمرانی،ڈائریکٹر ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ شازیہ ریاض، ڈائریکٹر ہیومن رائٹس بلوچستان یوسف شاہ، تعمیر خلق فاونڈیشن کے ہارون داود، عورت فاونڈیشن کے اشفاق مینگل و دیگر مقررین نے کہا کہ تحفظ نسواں کے لئے سرکاری اداروں کی استعداد کار میں اضافے کے لئے جامع تربیتی پروگرام کا انعقاد ناگزیر ہے جائیداد میں خواتین کے حصہ سے متعلق کیسز کے لئے پنجاب کی طرز پر بلوچستان میں بھی اختیارات خاتون محتسب کو تفویض کئے جائیں، اور نادرا ریکارڈ کے مطابق حصہ جائیداد کی تقسیم کی جائے، راحیلہ حمید درانی نے تجویز دی کہ قوانین پر عمل درآمد میں سست روی برتنے پر سرکاری اداروں کی موثر جوابدہی کے لئے اسٹینڈنگ کمیٹیوں کو فعال کیا جائے اراکین اسمبلی کی سہولت کے لئے مسودہ قوانین کو اردو میں بھی ترجمہ کرکے اراکین قانون ساز اسمبلی اور اسٹیک ہولڈرز کو فراہم کئے جائیں خواتین کے تحفظ کیلئے شیلٹر ہوم قائم کئے جائیں اسوقت صوبے میں کوئی شیلٹر ہوم نہیں، جس کی وجہ سے مختلف مقدمات میں بے گھر خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسٹس کیلاش ناتھ کوہلی نے شرکاء کو بتایا کہ انٹی ریپ لاء کے تحت اب ڈی این اے یا میڈیکل رپورٹ پر مکمل انحصار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ متاثرہ فرد کا بیان ہی کافی ہوگا مشاورتی نشست میں شرکاء نے بلوچستان ڈومیسٹک وائیلنس ایکٹ، بلوچستان چائلڈ میرج ایکٹ، بلوچستان ان ہیرٹینس ایکٹ، انٹی ریپ لاء کو موثر بنانے کے لئے تجاویز پیش کیں اور رائج الوقت قوانین پر عمل درآمد کے لئے کثیر الجہتی اقدامات کے تحت منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔