وفاقی بجٹ میں بلوچستان کے لئے کوئی بھی خصوصی منصوبہ نہیں رکھا گیا، میر اسد اللہ بلوچ
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل صوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ انتہائی مایوس کن ہے اس میں بلوچستان کے لئے کوئی خصوصی منصوبہ نہیں،بلوچستان کے لئے 50ارب روپے کا زرعی پیکج دیا جائے، ملکی معیشت آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں ہے بلوچستان کے وسائل استعمال ہوئے مگر صوبہ آج بھی پسماندگی اور محرومیوں کا شکار ہے، مرکز سے بلوچستان کے بنیادی آئینی حقوق کے حصول کے لئے سنگل پارٹی کا قیام ناگزیر ہے، یہ بات انہوں نے اتوار کو کوئٹہ پریس کلب میں کامریڈ رحمت اللہ کی بی این پی عوامی میں شمولیت کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی اس موقع پر بی این پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر ناشناس لہڑی، حسن بلوچ، کامریڈ رحمت اللہ، اکرام مینگل،الہیٰ بخش، پرویز بلوچ و دیگر نے بھی خطاب کیا، صوبائی وزیر میر اسداللہ بلوچ نے کہا کہ وفاقی بجٹ انتہائی مایوس کن ہے اس میں بلوچستان کے لئے کوئی بھی خصوصی منصوبہ نہیں رکھا گیا بلوچستان میں احساس محرومی کے خاتمے کے لئے یہاں کے لوگوں کو پیار اور محبت، بنیادی حقوق کی فراہمی کی ضرورت ہے اگر ایسا کرنے کی بجائے بندوق کی نوک سے انہیں خاموش کروایاگیا تو لوگ چلائیں گے بلوچستان کے لئے جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بھی طاقت کا استعمال ہوا مگر مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے نکلا اسی طرح بلوچستان کا مسئلہ بھی سیاسی ہے اسے سیاسی طور پر حل کیا جائے ہر بلوچ دہشتگرد نہیں ہے جب ہم پر امن طور پر بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں تو مرکز کو بھی ہمیں سنجیدیگی سے سننا ہوگا،ملک اس وقت آئی ایم ایف کا اس قدر قرضدار ہوچکا ہے کہ ہمیں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین سمیت انکی تمام شرائط تسلیم کرنی پڑ رہی ہیں اگر یہی صورتحال رہی تو مہنگائی کا طوفان برپا ہوگا قرضہ ترقی کا سبب نہیں ہے لیکن بلوچستان کے عوام کا اس مہنگائی یا قرض میں کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ یہاں کے اربوں ڈالر کے ذخائراستعمال کرنے کے باوجودعوام، زمیندار، طلباء کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ آج بھی محرومی کی زندگی بسر کر رہے اور تعلیم،بہتر روزگار جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں انہوں نے کہا کہ حکمرانو ں کی جانب سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور بلوچستان کو کالونی کی طرز پر چلانے کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوا ہے ماضی کے لیڈران بلوچستان کے وسائل پر دسترس اور حقوق کی بات کر تے تھے آج بڑے بڑے لیڈ ر بلدیاتی وارڈز جیتنے کے لئے کوشاں ہیں اگر ہم بلوچستان کو نہیں جیت سکتے تو ہمیں وارڈز جیتنے کا کیا فائدہ بلوچستان آج بھی دربدر ہے پہاڑوں کے دامن میں رہنے والے لوگوں کے چہروں پر پریشانی اور سوالات ہیں اسکا حل یہی ہے کہ ہم اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ اپنے وسائل اور حقوق کی آواز کو وفاق کے سامنے رکھیں انہوں نے کہا کہ میاں شہباز شریف کو کوئٹہ آمد پر کہا ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان ایٹمی قوت بن کر ابھرا مگر آج بھی چاغی اور ریکوڈ کی چھنپڑیوں میں بسنے والے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں انکا خیال رکھا جائے انہوں نے کہا کہ سرحد پار سے تیل لیکر اپنے پیٹ کی آگ بجھانے والے نوجوانوں کو گاڑیوں سے اتار کر تپتی ریت پر چھوڑ دیا گیا اور وہ تڑپ ٹرپ کر مر گئے انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی اپنے کارکنوں سے جھوٹ نہیں بولا جن لوگوں نے قربانیاں دیں آج انہی شہداء کی وجہ سے ہم ایوانوں میں ہیں ہم ان شہداء کو سلام پیش کرتے ہیں شہداء کو بھلا دینے والی اقوام کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں بعض ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے تحریکوں میں فعال کردار ادا کیا مگر انکا کسی نے بھی خیال نہیں رکھا اور وہ بے بسی اور لاچاری کی زندگی گزارتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے انہوں نے کہا کہ ہم ورکروں کو سیاسی ایندھن نہیں بنائیں گے بلکہ انہیں اپنے کاروان کا ساتھی سمجھتے ہیں قوموں کے لیڈر فقیر اور قوم امیر ہوتی ہیں لیکن یہاں لیڈر امیر اور قوم فقیر ہے انہوں نے کہا کہ پاک ایران سرحد پر باڑ لگاتے وقت ہم نے کہا تھا کہ اسکا نعم البدل ہونا چاہیے ریاست روزگار کے مواقع ختم نہیں بلکہ پیدا کرتی ہے کچھ علاقوں میں گیٹ لگانا مسائل کا حل نہیں ہے بلوچستان زرعی علاقہ ہے یہاں لوگوں کے پاس زمین ہے وسائل نہیں ہیں میرا مرکزی حکومت سے مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے لئے 50ارب روپے کا زرعی پیکج اور زمینداروں کو بلا سود قرضے فراہم کئے جائیں تاکہ وہ اپنے لئے روزگار کے مواقع پیدا کر سکیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو جذباتی نہیں بلکہ فکری اور شعوری جدوجہد کی ضرورت ہے بی این پی عوامی کبھی اپوزیشن میں بیٹھی نہ ہم بیٹھنا چاہتے ہیں اگر علاقائی جماعتیں جنکی نشستیں پہلے ہی کم ہیں وہ بھی اپوزیشن کریں گی تو عوام کے مسائل کیسے حل ہونگے انہوں نے کہا کہ عوام کسی بھی جماعت کو اپوزیشن میں بیٹھنے کے لئے ووٹ نہیں دیتے اگر کوئی جماعت الیکشن جیت کر اپوزیشن میں بھی بیٹھے گی تو عوام مایوس ہونگے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا کام صرف تقاریر کرنا ہوتا ہے یہ تقاریر جناح روڈ پر بھی کی جاسکتی ہیں انہوں نے کہا کہ صوبے کے عوام کے احساس محرومی کے خاتمے، آئینی حقوق کے حصول کے لئے یکجہتی اور سنگل پارٹی جو کسی کی جاگیر نہ ہو کی ضرورت ہے ہم انضمام اتحاد کے لئے تیار ہیں اور اسکا فارمولہ بھی تجویز کیا ہے کہ پہلی کابینہ اور پہلی بار منتخب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ دوسری بار کوئی عہدہ نہ لیں اور نہ ہی الیکشن لڑیں اس کے بعد عام آدمی کو نمائندگی دی جائے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو زنجیروں سے جکڑ کر پر امن ماحول طلب کرنا نا ممکن ہے گوادرسمیت صوبے کے دیگر وسائل کو فعال کر کے یہاں کے عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کئے جاسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ بی این پی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے پنجگور میں 16کالج اور 40کلو میٹر دو رویہ روڈ بنائے گئے ہیں پنجگور کے چار سے پانچ ہزار نوجوانوں کو نوکریاں دی گئی ہیں جبکہ پچھلے ادوار میں بھی بی این پی عوامی نے بلا تعصب چار ہزار سے زائد نوجوانوں کو نوکریاں دیں انہوں نے کہاکہ میں عاشق بلوچستان اور عاشق بلوچ ہوں عوام کی بہتری کے لئے کام کریں گے اور کسی پر کیچڑ نہیں اچھلنا چاہتے نہ ہی ہمارا کسی سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے لیکن دہرامعیارنہ رکھا جائے انہوں نے پارٹی میں شمولیت کرنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ جو بھی لوگ بی این پی عوامی میں شامل ہوں وہ پانچ سال تک پارٹی کارکردگی دیکھیں جس کے بعد پارٹی ان کے ساتھ بیٹھے گی اور جائزہ لے گی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کامریڈ رحمت اللہ، پرویز بلوچ، اکرام مینگل، الہیٰ بخش سمیت دیگر نے کہا کہ وہ ہمیشہ اجتماعی مفاد کی سیاسی کرتے ہوئے آئے ہیں نہ کبھی جھکے ہیں نہ بکے ہیں بی این پی عوامی میں شمولیت کا فیصلہ انہوں نے پارٹی کی صوبے کے لئے خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ہے