ماضی میں اتنا معاشی مشکل نہیں دیکھا جتنا آج دیکھ رہا ہوں : مفتاح اسماعیل

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ خواہش ہے ملک میں کسی کو بھی 2 ہزار وظیفے کی ضرورت نہ پڑے۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مشکل وقت میں بجٹ پیش کیا گیا کیونکہ ماضی میں اتنا معاشی مشکل نہیں دیکھا جتنا آج دیکھ رہا ہوں۔ ایک ہزار 100 ارب روپے بجلی کی مد سبسڈی دی گئی اور 500 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ دیا۔ 16 روپے فی یونٹ حکومت دے رہی ہے لیکن یہ بھی عوام کے ہی پیسے ہیں۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال شعبہ گیس میں 400 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی اور 30، 35 روپے بجلی کا یونٹ بنا رہے ہیں لیکن اگر باقی ممالک میں سستی گیس مل رہی ہے تو ہم مہنگی نہیں دے سکتے۔ ملک میں 200 ملین ڈالر کی گیس کا پتہ ہی نہیں کہاں گئی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ملکی انتظامی امور ٹھیک کرنا ضروری ہے ورنہ یہ ملک چلانا مشکل ہے۔ 2 اعشاریہ 4 ارب کی گیس ہم ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ پاکستان باوقار اور نیوکلیئر پاور ملک ہے، اس لیے ہمیں معیشت سنبھالنا ہو گی۔ فروری میں آئل اور پیٹرول پر سبسڈی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بہت مشکل فیصلے لیے ہیں اور اگر مزید مشکل فیصلے لینے ہوئے تو وہ بھی لیں گے کیونکہ اس وقت کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ عمران خان کے دور میں تاریخی معاشی خسارہ ہوا اور انہوں نے پورے ملک کے ساتھ ٹوپی گھمائی ہے۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اگر سری لنکا جیسی حالت ہوئی تو لوگ معاف نہیں کریں گے۔ ہمیں بجٹ میں 459 ارب روپے خسارے کا سامنا ہے۔ ہم 90 میں بنگلہ دیش سے آگے تھے اور کیا وجہ ہے کہ ہم اس نہج پر آگئے ہیں۔ عوام کا ساتھ چاہتا ہوں اور پیٹرول مہنگا کر کے پیسے گھر نہیں لے جا رہے۔ اخراجات صرف 3 فیصد بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گیس اور پاور سیکٹر کی سبسڈی ختم کی ہے اور کوشش کی ہے کہ امیر لوگوں کا حصہ ملک کو مشکل سے نکالنے میں استعمال کریں۔ خوردنی تیل کا مسئلہ ہے تاہم وزیر اعظم نے انڈونیشیا کے صدر سے بات کی ہے۔ پرسنل انکم ٹیکس کم کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کو فکس کر کے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے۔ آئندہ 15 دن میں اسمبلی اور سینیٹ میں تقاریر ہوں گی اور بجٹ میں آئندہ 15 روز میں کچھ چھوٹی تبدیلیاں ہوں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے