بلوچ ماؤں، بہنوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح لے جایا گیا، ثنا بلوچ

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ بیس منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کے زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں بی این پی کے ثنا بلوچ نے پوائنٹ آف آرڈر پر بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ مرحلہ پر امن طور پر منتقل ہونے پرسب مبارکباد کے مستحق ہیں انہوں نے کہا کہ پہلے ملک اور پر بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں اور حکومتوں کی تبدیلیوں کے باعث بہت سے درپیش مسائل پر بات نہیں ہوسکی انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کامسئلہ بدستور گمبھیر ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد بلوچستان میں ایسے بعض واقعات رونما ہوئے۔ شاری بلوچ خود کش حملے کے بعد کارروائیاں قابل افسوس ہیں۔ نورجہاں نامی خاتون کو آئین اور قانون کے خلاف اٹھایا گیا تو اس کے مکران پر اثرات واضح طور پر مرتب ہوئے مکران سیاسی و دیگر حوالے سے نمایاں اہمیت کا حامل ہے جب نور جہاں نامی خاتون کو قانونی تقاضے پورے کئے بغیر لاپتہ کیاگیا تو اس پر وہاں عوام نے شدید احتجاج کیا شاہراہ بند کی گئیں مگر افسوس اس دوران صوبائی حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آیا حالانکہ اس واقعے کے بعد وزیراعلی اور متعلقہ وزرا کو وہاں پر پہنچنا چاہیے تھا ہمارے معاشرے میں ایک خاتون کی گرفتاری ایک انتہائی حساس اور سنجیدہ مسئلہ ہے انہوں نے کہا کہ ابھی نور جہاں کا مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ کراچی سے حبیبہ نامی ایک بلوچ شاعر و ادیب کو بھی بغیر کسی ایف آئی آر اور قانونی تقاضے پورے کئے بغیر اٹھایا گیا جس پر کراچی میں شدید احتجاج ہوا۔ شاری بلوچ خود کش حملے کے بعدکراچی میں بلوچ ماؤں، بہنوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح پولیس گاڑیوں میں ڈال کر لے جایا گیا۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس کیخلاف ہم احتجاج سندھ میں بھی کراسکتے ہیں، اسلام آباد میں بھی کراسکتے ہیں، ہم کراچی میں بھی احتجاج کراسکتے ہیں، کوئٹہ میں بھی احتجاج کراسکتے ہیں۔ لہٰذا لیکن کم از کم ہماری ماؤں، بہنوں کو گرفتار نہ کیا جائے، اگر وہ آئین اور قانون کے دائرے سے ہٹ کر کوئی جدوجہد کرتے ہیں تو اس پر بھی احتجاج کرتے ہیں۔ حبیبہ پیر کو 19 مئی کو لاپتہ کیا گیا، اس کے بعد ان پر جو دکھ، درد، مصیبتیں، رنج و علم ان پر ہوتی ہیں اس لیے ہمیں کہتے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے کو جتنا جلد ہوسکے اسے حل کیا جانا چاہیے، کیونکہ بلوچستان کی تکلیفیں سرائیت کرگئیں ہیں، پیوست ہوگئیں ہیں ہماری سیاست میں، ہماری معاشرتی امور میں، ثقافت میں یہ ہمارے ادب میں بھی جاچکی ہیں۔ ایک بلوچ عورت کیسے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھ سکتی جب دوسری مائیں، بہنیں رو رہی ہوں، بلوچ لاپتہ افراد کیخلاف احتجاج کررہی ہوں۔ اگر کوئی شاعری کررہا ہے تو آپ اسے اذیت کا شکار نہیں بنا سکتے۔ اس بات کا کسی بھی معاشرے میں اجازت نہیں۔ کیا آپ کی طرف سے ظلم، زیادتی، بے انصافیاں ہوں اور اگر میں دو چار محبت کے لفظ اپنے لوگوں کیلئے لکھ دوں، داستانیں لکھ دوں تو کیا ایسا نہیں ہوسکتا۔ بی بی سی کی ہیڈ لائن پر چلتا ہے کہ بلوچستان سے ایک شیر خوار بچہ بھی لاپتہ ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کو جلد حل کیا جائے 26اپریل کو دو مرد، دو خواتین اور بچوں کو بھی اٹھایا گیا۔ نور جہاں بلوچ،شاعر حبینہ پیر محمد بلوچ سمیت شیرخوار بچے کا اغوا قابل مذمت ہے۔ بلوچستان کی سب سے اہم ترقی بلوچستان کے لوگوں کا سکون ہے، تحفظ ہے۔ آپ بغیر بجلی کے سو سکتے ہیں، پیاسے سو سکتے ہیں، ویسے بھی ہمارے یہاں کوئی سہولت نہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب سی ٹی ڈی کوئی کارروائی کرتی ہے، سیکورٹی ادارے کوئی کارروائی کرتے ہیں تو صوبائی حکومت کو بیٹھ کر یہ بات کرنا چاہیے کہ اب حالات بدل گئے ہیں، جہاں انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے تو ذمے دار حکومت یہ کوشش کرتی ہے کہ جب ہم جنگ کے عمل سے گزر رہے ہوں تو آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر تمام کارروائیاں کی جائیں۔ ثناء بلوچ نے کہا کہ اس دوران پیرکوہ میں ایک انسانی المیہ نے جنم لیا ہیضے سے سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں آج بھی اسمبلی کے باہر خواتین اساتذہ اپنی تقرری کیلئے احتجاج کررہی ہیں انہیں فوری طور پر تقرر نامے جاری کئے جائیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ خاران کو قومی اسمبلی کی ایک الگ نشست دی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے