خواتین کیخلاف جرائم ختم کرنے کیلئے انکی عزت کرنا بھی لازم ہے، جسٹس فائزعیسیٰ

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیڈرل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم ختم کرنے کیلئے خواتین کی عزت کرنا بھی لازم ہے۔

اسلام آباد میں صنفی بنیاد پر جنسی تشدد کے واقعات اور عدلیہ کا ردعمل کے موضوع پر فیڈرل جوڈیشل کانفرنس ہوئی۔کانفرنس سے خطاب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھاکہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے آج کے موضوع پر مہارت نہیں۔
1979 میں جابر نے حدود آرڈیننس کے ذریعے مسلمانوں کو بہتر مسلمان بنانے کی کوشش کی، 1979وہی سال تھا جب روس نے افغانستان پر چڑھائی کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھاکہ ہمارے تمام قوانین انگریزی میں ہوتے ہیں، قوانین دو زبانوں میں کیوں نہیں ہوسکتے آج تک سمجھ نہیں آیا۔ریپ کو زنا بالجبر کی حدود میں لایا گیا اس غلطی کو درست کرنے میں 27 سال لگے، کتنی خواتین نے اس دوران تشدد برداشت کیا ان کا جواب اللہ کو کون دے گا؟ خواتین کے خلاف جرائم ختم کرنے کیلئے خواتین کی عزت کرنا بھی لازم ہے، یہاں جابروں سے ملنا اور تعلق رکھنا ایک فخر سمجھا جاتا ہے۔

انصاف کی فراہمی میں سارا نظام اور اسٹیک ہولڈر ناکام ہیں: جسٹس ریٹائرڈ قاضی امین کانفرنس سے خطاب میں جنسی زیادتی کے 75فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے، جنسی زیادتی کے جرائم کا ٹرائل تیز رفتاری سے ہونا چاہیے۔پولیس آفیسر کو تفتیش کیلئے 500 روپے ملتے ہیں، جنسی زیادتی کے کیس میں صرف ڈی این اے ٹیسٹ 14 ہزار کا ہوتا ہے۔

جنسی زیادتی جرائم میں صرف 7 فیصد ملزمان کو سزائیں خطرناک صورتحال ہے، ضمانت قبل از گرفتاری کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں، ریپ سمیت بڑے سے بڑے جرم کا ذمے دار ضمانت قبل از گرفتاری کرا لیتا ہے۔

جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات کا فیصلہ دو ماہ میں ہونا چاہیے: جسٹس (ر) ناصرہ جاویدجاوید کا کہنا تھاکہ خواتین اور بچے زیادہ تر جنسی تشدد کا نشانہ جاننے والوں کے ذریعے بنتے ہیں، میرا ملازم منشیات لینے لگا تو اپنی ہی بیٹی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ ماں بیٹی کو لے کرتھانے پہنچی تو محرر نے کہا گھر کا معاملہ ہے، جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات کا فیصلہ دو ماہ میں ہونا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے