تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال اوربڑھتا ہوا سیاسی درجہ حرارت مل کرمعیشت کودیوالیہ کرسکتا ہے : میاں زاہد حسین

کراچی نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ کمزورمعیشت جارحانہ سیاست کی مذید متحمل نہیں ہوسکتی۔ تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال اوربڑھتا ہوا سیاسی درجہ حرارت مل کرمعیشت کودیوالیہ کرسکتا ہے۔ اہم معاملات پرفیصلوں کوٹالنے کی پالیسی اوراہم رہنماؤں کے متضاد بیانات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے اقتصادی عدم استحکام اور بے یقینی بڑھ رہی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف ملکی حالات تشویشناک ہیں جبکہ دوسری طرف روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے ساری دنیا میں مہنگائی، زرعی اشیاء کی قلت اوربے چینی بڑھ رہی ہے مگراسکے باوجود ہماری حکومت نے ابھی تک اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے کسی واضح اقتصادی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا ہے جوپریشان کن ہے۔ موجودہ حکومت کے آتے ہی عوام اورکاروباری برادری نے سکھ کا سانس لیا تھا اوروہ معاشی حالات میں بہتری کی توقع کررہے تھے مگرانکی ساری خوش فہمی جلد ہی ختم ہوگئی اوراب وہ مستقبل کے اندیشوں کی وجہ سے سہمے ہوئے ہیں۔ موجودہ مشکل حالات میں دوست ممالک نے صرف تسلیاں ہی دی ہیں جس کے بعد حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا ہے جس سے قرض لینے کی صورت میں افراط زرجوپہلے ہی تیرہ فیصد ہے مذید بڑھ جائے گا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط سے مہنگائی بڑھے گی اورحکومت کی ساکھ متاثرہوگی مگراس کڑوی گولی کونہ نگلا گیا تو معیشت مکمل تباہ ہوجائے گی۔ اس وقت روپیہ مسلسل کمزورہورہا ہے، ڈالرمہنگا ہوتا جا رہا ہے، درآمدات بڑھ رہی ہیں اورکرنٹ اکاؤنٹ ومالیاتی خسارہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے جس کا حل نکالنا ضروری ہے ورنہ پاکستان جلد ہی خاکم بدہن سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہو جائے گا۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ درآمدات میں کمی کے لئے کم ازکم ایک درجن شعبوں پرڈیوٹی میں دوسوسے تین سو فیصد تک اضافہ کیا جائے تواس سے امپورٹ بل کم ہوجائے گا جس پرفوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ موجودہ حکومت کوسابق حکومت کی اقتصادی تباہ کاریوں، معاشی بارودی سرنگوں اورمجموعی اقتصادی حالات کا بخوبی اندازہ تھا اوراگراس نے ملکی مفاد میں سخت فیصلے نہیں کرنا تھے تواقتدارسنبھالنے کی کیا ضرورت تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے