حکومت نے سریاب روڈ کے تاجروں کو زمین کاریٹ 690روپے فی فٹ کے حساب سے دیا ہے وہ قابل قبول نہیں ہے،عبدالرحیم کاکڑ
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) کمشنر کوئٹہ ڈویژن سہیل الرحمن بلوچ سے مرکزی انجمن تاجران بلوچستان کے صدر عبدالرحیم کاکڑ کی قیادت میں سریاب روڈ کیٹنگ کے حوالے سے ایک وفد نے ملاقات کی جس میں میر یاسین مینگل،حاجی عبدالمالک لہڑی،مستی خان قمبرانی،عباس لہڑی،عبدالسلام بادینی، حاجی لعل محمد لہڑی،رحمت اللہ نچاری،ناصر قمبرانی،حاجی رشید شامل تھے،ایڈیشنل کمشنر یاسر بازئی پروجیکٹ ڈائریکٹر عابد بلوچ بھی موجود تھے، عبدالرحیم کاکڑ نے کہا کہ ترقیاتی کام کا کوئی مخالفت نہیں لیکن ترقیاتی کام کے آڑ میں تاجروں کے نقصانات قبول نہیں اس طرح منصوبہ بنایا جائے جس سے تاجر برادری کے نقصانات کم سے کم ہوں اور ترقیاتی کام بھی صحیح انداز میں جاری ہو کر تکمیل تک پہنچ سکیں، موجودہ حکومت نے جو ریٹ 690روپے فی فٹ کے حساب سے تاجروں کو دیا ہے یہ ریٹ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں اس ریٹ پر سریاب کولپور اور بلوچستان کے کسی ایریا میں بھی اس ریٹ پر زمین نہیں ملتی، ہمارا مطالبہ ہے کہ ایف بی آر کے شیڈول جو کہ12000روپے فی فٹ کے حساب سے ریٹ رکھا گیا ہے یا تو وہ ریٹ دیا جائے یا جو موجودہ مارکیٹ ریٹ 25000روپے فی فٹ سے لیکر35000روپے فی فٹ ریٹ ہے اس کے مطابق ریٹ دیا جائے جبکہ سریاب فلائی اوور کے موقع پر جو ریٹ دکانداروں کو2012ء میں دیا گیا تھا جو کہ 3000روپے سے لیکر5000روپے تک دیا گیا ہے اور آج 2022ء میں 690روپے کا ریٹ دیا جا رہا ہے یہ کہاں کا انصاف ہے آج جب بھی ہم زمین کی خرید و فروخت کے لئے تحصیل جاتے ہیں تو وہ ایف بی آر کے شیڈول 12000روپے فی فٹ کے حساب سے ہم سے ٹیکس لیا جاتا ہے اور 690کے حساب سے دیا گیا ریٹ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ ہمارے مطالبات ہیں کہ سریاب روڈکٹنگ کے حوالے سے ہم نے پہلے بھی مطالبہ کیا تھا اور ہمارا اب بھی مطالبہ ہے کہ ایک کمیٹی PDاور مرکزی انجمن تاجران بلوچستان کے نمائندے اور اسسٹنٹ کمشنر سریاب، تحصیلدار اور علاقہ MPAاور MNAشامل ہوں۔ اور کمیٹی کی سفارشات کے مطابق سروے کیا جائے۔ سریاب روڈ کٹنگ کا منصوبہ دو سال سے شروع ہے جس کی وجہ سے سریاب روڈ کے دکانداروں کی دکانیں گرا کر انہیں دو سال سے بے روزگار کر دیا گیا ہے اور کام سست روی سے جاری ہے اور کام کی وجہ سے گرد و غبار فضا میں پھیلا رہتا ہے اور دکانیں مٹی سے بھری پڑی ہیں جس سے کاروبار حضرات اور عوام کو شدید مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جب تک کام مکمل نہ ہو اس وقت تک جتنی دکانیں گرائی گئی ہیں ان دکانداروں کو الاؤنس دیا جائے تاکہ وہ اپنے گھر گزر بسر جاری رکھ سکیں۔ سریاب کسٹم پر جو نقشہ اڈے کے لئے دیا گیا ہے یہ ہمیں اس لئے قابل قبول نہیں کیونکہ 1990ء سے ہزار گنجی میں ویگن، بس اسٹاپ زیر تعمیر ہے جو کہ آج تک خالی پڑا ہوا ہے اگر گورنمنٹ کو یہاں ویگن اسٹاپ بنانا ہے تو پولیس ٹریننگ کالج پر اس نقشے کو منتقل کیا جائے جو کہ سرکاری زمین ہے اور قانون کی رو سے بھی یہی طریقہ ہے کہ پہلے سرکاری زمین کو کام میں لایا جائے۔ ایری گیشن سے لیکر سریاب کسٹم تک سرکاری زمینوں میں دکانداروں کو ایڈجسٹ کیا جائے جن میں ریڈیو ٹرانسمیشن، ایگریکلچر کی زمین، ولی جیٹ جو کہ اکبر خان بگٹی اسکول سے گزر کر سریاب پل تک سرکاری زمین اور پولیس ٹریننگ سینٹر سے لیکر ریڈیو اسٹیشن مینگل آباد اور یونیورسٹی آف بلوچستان کی زمین اور دیگر سرکاری زمین جو کہ ریڈیو اسٹیشن سریاب کسٹم چوک پر کافی ایکڑ میں موجود ہے، ان دکانداروں کو وہاں پر ایڈجسٹ کیا جائے مستونگ روڈ اور سبی روڈ کسٹم کا ابھی تک کوئی نقشہ نہیں بنایا گیا ہے لہٰذا ہمیں پہلے سے بتایا جائے کہ ہم اپنی دکانوں کے پیچھے اپنی جگہ بنائیں جس کی وجہ سے حکومت کے لئے بھی آسانی ہو اور دکاندار بھی بے روزگاری سے بچ سکیں۔ اگر دکانداروں کو سرکاری زمین پر ایڈجسٹ کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ برما ہوٹل سے لیکر بلوچستان چوک تک دکانداروں کو ابھی تک کوئی نوٹس نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی نقشہ ظاہر کیا جا رہا ہے جس سے دکانداروں میں تفتیش پایا جاتا ہے۔اور ہمارا مطالبہ ہے کہ جلد سے جلد نقشے کی وضاحت کی جائے کمشنر کوئٹہ نے تمام مسائل کو سن کر یقین دہانی کرارئی کہ چند دنوں تک ان مسائل کوحل نکالیں گے۔