کراچی یونیورسٹی کے خود کش حملے میں جانی ضیاع و املاک کا نقصان نہایت افسردگی کاباعث ہے، امان اللہ کنرانی

کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر)سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر(ر) امان اللہ کنرانی نے کراچی یونیورسٹی میں المناک واقعے پر اظہار افسوس و رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحتیابی اور پس ماندگان کو صبر کی توفیق کی دعا کے ساتھ کہا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے خود کش حملے میں جانی ضیاع و املاک کا نقصان نہایت افسردگی کاباعث ہے دنیا فانی ہیاس کو نعمت سمجھ کر اپنے خاندان و بچوں کی خوشی میں گزارنا چاہیے زندگی کے مسائل و مشکلات وحالات واقعات پر اپنااپنا نکتہ نظرترویج ہرایک کاحق ہے مگرایک گھریلو،بچوں کی ماں کی قیمت پرنہیں ریاست کا رویہ یقینا والدین کی طرح برداشت و بردباری و تحمل کا ہونا چاہیے ریاست کو قانون باتھ میں نہیں لینا چاہیے جس نے جو جرم کیا ہو وہ قانون کے کٹہرے میں لایا جائے انتقام یا قانون سے ماوراء اقدام تو فرد کرسکتا ہے جس کو ریاستی اداروں کی تفتیش و عدالتی نظام کے زریعے سزا کا اختیار حاصل نہیں ہے مگر ریاست کو یہ تمام اختیارات و وسائل و زرائع حاصل ہونے کے باوجود ریاست کی جانب سے انسانی و بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا اقدام ایسے ہی ماحول کو جنم دیتا ہے جس کی بنا پر عوام کے اندر ہمدردی کا رجحان پیدا ہونا فطری امر ت ہے تاہم بدقسمتی سے زمینی حقائق متقاضی ہیں کہ اس کا ادراک کرنابے حد ضروری اور وقت کی ضرورت ہے دراصل بلوچستان میں اگست 2006 میں نواب بگٹی کی بے گناہ شہادت ان حالات کی چنگاری کا باعث بنا ریاست نے آج تک اس پر اپنی غلطی تسلیم نہیں کی اس طرح اپریل 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کے پھانسی پر ریاست کو کوئی سبکی محسوس نہ ہوئی اور تو اور مشرقی پاکستان میں 1970-71کے واقعات و سانحات پر بھی کوئی ملال نہیں محسوس کیا گیا آج ایک بار پھر ان حالات کا تقاضا اور وقت کی پکار ہے کہ ریاست اس کا ادراک کرتے ہوئے اپنی خامی و غلطیوں کا اعتراف کرے امریکہ جیسے زمین پر خداء کا دعوی کرنے والے ملک نے بھی طالبان سے اپنی ایک دھاء کی جنگ و جانی و مالی نقصانات کو پس پشت ڈال کر امن کو موقع دیا اور صلح کرکے افغانستان سے نکل گیا جبکہ ایسے ہی ایک مصالحتی عمل کے زریعے یہی کچھ بلوچستان میں 1977 کے اندر پانچ سالہ آپریشن کا خاتمہ کے بعد بالآخر سیکورٹی دستے اپنے مورچے خالی کرکے اپنے اپنے بیرکوں میں چلے گئے جس کے نتیجے میں متحارب بلوچستان کے تمام مزاحمتی رہنما قومی دھارے میں شامل ہوئے آج تک یہ تسلسل جاری ہے مگر یہ عمل 2006 میں روس کے گورباچوف جیسی قوتوں نے سبوتاڑ کیا اور بلوچستان کو ایک سنگین صورتحال سے دوچار کردیاہے اس کا حل ایسے ہی ممکن ہے جیسے ماضی میں مصالحت و مزاکرت و تصفیے کے زریعے ممکن ہوا ایسے ہی جرات مندانہ رویوں و اقدامات سیدشمن کی ملک و قوم کے خلاف سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے اور ان کے عزائم کو شکست دی جاسکتی ہے ہم الحمدوللہ اس ملک کے وہ باسی ہیں جو وطن کی مٹی کو اپنی ماں سے تشبیح دیتے ہوئے اس کی آسائش و وسائل کو ماں کی دودھ سے تعبیر کرتے ہیں وفا و جفا کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے یہی بات نواب بگٹی شہید نے 2005 میں گیس پائپ لائنوں کو دھماکوں سے اڑانے کے واقعات کے رونما ھونے کے ردعمل میں کہتے تھے کہ یہ کیونکر ممکن ہے ہم اپنی روزی کو لات ماریں گیس تنصیبات ہمارے لئے گاؤ ماتا کا درجہ رکھتی ہیں ہم کیسے اہنی روزی پر لات مار سکتے ہیں اس میں وہی لوگ ملوث ہیں جن کی روزی پائپ لائن کی حفاظت و امن مخالفت میں لگی ہو جب تک گیس پائپ لائن غیر محفوظ نہ ہو امن خراب نہ ہو کون انکی حفاظت پر مامور کرے گا اس لیے ایسے حالات پیدا کرو تاکہ ان کو طلب کیا جائے اور وہ قلعہ گاڑ کر بیٹھے رہیں جو آج تک جاری ہے کچھ حالات اب بھی ایسے ہی محسوس ہورہے ہیں طالبان سے صلح کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا راستہ بند ہوگیا کشمیر قانونی و آئینی طور پر ہندوستان کے حوالے و حصہ بنائے جانے کے بعد اب وہاں کا تناو بھی ختم ہوگیا اب صرف بلوچستان کا محاذ رہ گیا جہاں جھنڈے گاڑنے ہیں اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا 2006 میں کوئٹہ ہزار گنجی میں نیو کاہان مری کیمپ میں ایک خالی مٹی کے چار دیواری کے کچے قلعہ پر فورسز نے پاکستان کا جھنڈا لہرا کر ثابت کیا کہ ہم نے اس کو فتح کرلیا ہے اب اگر اپنے ملک میں فتوحات و پش قدمی جاری ہو تو دشمن سے لڑنے کون جائے گا ان حالات میں تدبر فہم و فراست و برداشت و تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے اور بلوچستان کے باسیوں کو دشمن کی صفوں میں پھیکنے کی بجائے اپنے بانہوں میں لیا جائے اور وطن کی حفاظت میں ان کو اعتماد میں لیکر اپنا دست و بازو بنایا جائے نہ کہ دشمن کا خنجربنا یاجائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے