عہدے سے مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں، چیف الیکشن کمشنر
اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے کہا ہے کہ ان کا عہدے سے مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں اور وہ ’ملک کے بہتر مفاد میں کام جاری رکھیں گے‘اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ ان کی جماعت چیف الیکشن کمشنر کو ’جانبدار‘ سمجھتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو چیف الیکشن کمشنر پر اعتماد نہیں اور ان کے تمام تر فیصلے پارٹی کے خلاف ہوتے ہیں۔
سکندر سلطان راجا نے عمران خان کی جانب سے کیا گیا استعفے کے مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، ایسی کوئی وجہ ہی نہیں جس پر میں استعفیٰ دینے کے بارے میں سوچوں‘۔گزشتہ ہفتے عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ سکندر سلطان راجا کو الیکشن کمیشن کا سربراہ بنانے کی تجویز اسٹیبلشمنٹ نے دی تھی۔
بنی گالہ میں صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی ملاقات میں مختلف امور پر گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعطل کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے چیف الیکشن کمشنر کے لیے سکندر سلطان راجا کے نام کی تجویز دی تھی، کیونکہ آزاد ادارے سے الیکشن کمیشن کا سربراہ نامزد کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔
عمران خان نے کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کریں گے، ای سی پی نے حلقہ بندی بروقت نہیں کروائی جس کی وجہ سے ان کی ’نااہلی‘ ظاہر ہوتی ہے اور اس وجہ سے قبل از وقت انتخابات میں بھی تاخیر ہوئی ہے۔لاہور میں منعقدہ جلسے میں چیئرمین پی ٹی آئی نے الزامات دہراتے ہوئے الیکشن کمشنر کو جانبدار قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ’مسلم لیگ (ن) کو عہدہ دینے سے متعلق ان کا جھکاؤ واضح تھا‘۔
قبل ازیں مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان، پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے سے قبل جعلی بیانیے کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کو نشانہ بنائیں گے۔
سکندر سلطان راجا کو جنوری 2020 میں عہدے پر تعینات کیا گیا تھا، وہ پہلے بیوروکریٹ ہیں جو ملک کے سب سے بڑے انتخابی ادارے کی سربراہی کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے سربراہ کی تعیناتی کا فیصلہ دوطرفہ 12 رکنی پارلیمانی پینل نے کیا تھا، جو بعد ازاں منظوری کے لیے وزیر اعظم کو بھیجا گیا تھا۔
سابق وزیر برائے انسانی حقوق اور پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری کی جانب سے پارلیمانی باڈی کے اجلاس کی سربراہی کے دوران فیصلہ کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ کرنا اراکین پارلیمنٹ کی ذمہ داری بھی تھی، پارلیمانی معاملات کا فیصلہ پارلیمنٹ کو ہی کرنا چاہیے۔
شیریں مزاری نے یہ بات ڈیڈلاک کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہی تھی، جس کے سبب ای سی پی کم از کم ڈیڑھ ماہ سے غیر فعال تھا۔