عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، چیف جسٹس

اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر) غیر معمولی سیاسی صورتحال پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس میں چیف جسٹس نے 31 مارچ کا ڈپٹی اسپیکر کا آرڈر طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا فوکس صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر ہے، عدالت کی ترجیح ہے کہ صرف اس نقطے پر ہی فیصلہ ہو، عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، عدالت نے صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے، عدالت پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی، تمام فریقین کو کہیں گے کہ اس نقطے پر ہی فوکس کریں۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ ملک میں موجودہ آئینی صورتحال پر ازخود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔ خاتون وکیل نے فریق بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سارا مسئلہ جس کی وجہ سے بنا اس کو بلایا جائے، اسد مجید نے خط لکھا، ان کو بلایا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فریق بننے کی درخواستیں نہیں سن رہے، آپ بیٹھ جائیں ہم نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو سننا ہے۔

رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا بیان آیا کہ 3 ماہ میں انتخابات ممکن نہیں، کوشش ہے آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آ جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں لیکن تمام فریقین کا مؤقف سنیں گے۔

رضا ربانی نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنیٰ حاصل ہے، جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جاسکتا ہے، سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کرلیا جو غیرآئینی ہے، 28 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوئی، مگر سماعت ملتوی کی گئی، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ پڑھی اور ارکان کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا۔

رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے یہ بھی اعلان نہیں کیا کہ تفصیلی رولنگ جاری کریں گے، ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا، ڈپٹی اسپیکر کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ، ڈپٹی اسپیکر نے تحریری رولنگ دے کر اپنی زبانی رولنگ کو غیر مؤثر کر دیا۔

رضا ربانی نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کیخلاف ہے، آئین میں وزیراعظم کو ہٹانے کا طریقہ کار درج ہے، وزیراعظم استعفیٰ دے سکتے ہیں، اگر اکثریت کھودیں تو تحریک عدم اعتماد پر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے، اگر قرارداد پارلیمنٹ میں آجائے تو وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کرسکتے، عدالت نے دیکھنا ہے پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنیٰ حاصل ہے۔

دلائل میں مزید کہا کہ آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 کی تشریح کر کے ارکان پر اطلاق کر دیا، اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل 95 (2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے، وزیراعظم نے اپنے بیان میں 3 آپشنز کی بات کی، 3 آپشنز والی بات کی اسٹیبلشمنٹ نے تردید کی، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوایا جائے، عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر اسمبلی کو بحال کرے۔

مسلم لیگ ‏ن کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 95 کی ذیلی شق ایک کے تحت عدم اعتماد قرار داد جمع ہوئی، عدم اعتماد کی تحریک پر 152 ارکان کے دستخط ہیں، عدم اعتماد کو 161 ارکان نے پیش کرنے کی اجازت دی، 161 ارکان کی حمایت پر اسپیکر نے عدم اعتماد کی اجازت دی، عدم اعتماد پر مزید کارروائی 31 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی، 31 مارچ کو قرار داد پر بحث نہہں کرائی گئی، 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی، وزیراعظم اکثریت کھو دیں تو عہدے پر رہنا پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے، آئین میں نہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ تحریک پیش کرنے کی منظوری کیلئے 20 فیصد ارکان ضروری ہیں، 20 فیصد منظوری دیں لیکن ایوان میں موجود اکثریت مخالفت کرے تو کیا ہوگا ؟ وکیل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو اس پر ووٹنگ ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کو رولز کے ذریعے غیر مؤثر نہیں بنایا جاسکتا، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے۔

وکیل مخدوم علی نے دلائل دیئے کہ وزیراعظم برقرار رہیں گے یا نہیں فیصلہ ایوان ہی کرسکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اصل سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اسپیکرکی رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے ؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ غیر آئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے، ایک شخص ایوان کی اکثریت کو سائیڈ لائن نہیں کرسکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت فی الحال صرف آئینی معاملات کو دیکھنا چاہتی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت چاہے تو حساس اداروں سے بریفنگ لے سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے