سپریم کورٹ:ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ پرازخود نوٹس کی سماعت بدھ تک ملتوی

اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر)  قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پرازخود نوٹس کی سماعت کل بروز بدھ صبح 11 بجے تک ملتوی کردی گئی متحدہ اپوزیشن کی جانب سے فاروق ایچ نائیک کیس کی پیروی کررہے ہیں، جب کہ تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان ہیں، جب کہ وکیل نعیم بخاری اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی نمائندگی کررہے ہیں۔

سماعت کے آغاز میں خاتون وکیل افشاں غضنفر نے کہا کہ اسد مجید (امریکا میں پاکستانی سفیر) کو بلایا جائے جنہوں نے یہ خط لکھا ہے۔ اس موقع پرچیف جسٹس نے کہا کہ محترمہ کیا بات کررہی ہیں، ایسا ممکن نہیں، فی الحال کسی کی انفرادی درخواست نہیں سن رہے، صرف سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو ہی سنیں گے۔ بعد ازاں رضا ربانی نے دلائل کا آغاز کیا۔عدالت عظمیٰ کے روبرو رضا ربانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا میڈیا میں بیان آیا ہے کہ تین ماہ میں انتخابات ممکن نہیں، کوشش ہے کہ آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آجائے،جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں لیکن تمام فریقین کا مؤقف سن کرکریں گے۔ رضا ربانی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنی ہے۔ جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لاء ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیارکرلیا جو غیرآئینی ہے۔ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کر دی گئی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ پڑھی اور تمام ارکان کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا۔ ڈپٹی اسپیکر نے یہ بھی اعلان نہیں کیا تھا کہ تفصیلی رولنگ جاری کرینگے۔ ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا۔ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے عدالتی حکم تھا اور نہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ تھی۔ ڈپٹی اسپیکر نے تحریری رولنگ دیکر اپنی زبانی رولنگ کو غیر مؤثر کر دیا۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کے خلاف ہے۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیراعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے۔ صدر مملکت ازخود بھی وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیراعظم اسمبلی بھی تحلیل نہیں کرسکتے۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے تک اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی نہیں ہوسکتا۔ آرٹیکل 95 کو اسپیکر غیر موثر نہیں کر سکتا۔ اسپیکر ہمیشہ ہی حکومتی جماعت کا ہوتا ہے۔

پی پی رہنما نے مزید کہا کہ عدالت نے رولنگ درست قرار دی تو آئندہ کبھی تحریک عدم اعتماد نہیں آ سکے گی۔ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو استثنی حاصل ہوتا ہے۔ اسپیکر کارروائی چلانے کیلئے جو فیصلہ کرے اسے تحفظ حاصل ہوگا۔ آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا۔ ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 کی تشریح کرکے ارکان پر اطلاق کردیا۔

اس موقع پر انہوں نے لارجر بینچ کے سامنے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل 95(2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ عدالت سے ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے آرٹیکل 5 اور 95 کی تشریح کا جائزہ لینے کی استدعا کرتے ہیں۔ وزیراعظم ووٹنگ سے قبل ہی اکثریت کھو چکے تھے۔ وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ انہیں تحریک عدم اعتماد اور استعفیٰ اور الیکشن کے آپشن دیئے گئے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ نے وزیراعظم کو پیشکش کئے جانے کی تردید کی تھی انہوں نے معزز عدالت کے روبرو دلائل مکمل کرتے ہوئے درخواست کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ غیرآئینی قرار دے۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوائے جائیں۔ عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیکر اسمبلی کو بحال کرے۔

رضا ربانی کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ 28 مارچ کو وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری دی گئی۔ 3 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی۔ جس پر عدالت نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ فوری طلب کرلیا۔ عدالت نے اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری کو ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت بھی کردی۔ بات جاری رکھتے ہوئے اس موقع پر ن لیگی وکیل نے کہا کہ 3 اپریل کو جو ہوا پوری قوم نے دیکھا۔ سارا مقدمہ ہی ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا ہے۔ معاملہ اسمبلی قواعد پر عملدرآمد کا نہیں بلکہ آئین کی خلاف ورزی کا ہے۔ اکثریت نہ ہونے کے باوجود وزیراعظم کا رہنا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔

جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں۔ جواباً ن لیگی وکیل نے کہا کہ رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں۔ پارلیمانی کارروائی میں ہونے والی بے ضابطگی کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اسپیکر کی غیرآئینی رولنگ کو آرٹیکل 69 کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔مخدوم علی خان نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے لکھی ہوئی رولنگ پڑھی جس کے نیچے اسپیکر کے دستخط بھی ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر اسپیکر نے اختیارات ڈپٹی اسپیکر کو تقویض نہیں کیے تو یہ قواعد کی خلاف ورزی ہوگی یا نہیں؟مخدوم علی خان نے کہا کہ اسپیکر نے رولنگ کی تصدیق کی ہے،معلوم نہیں کہ اسپیکر نےاختیارات ڈپٹی اسپیکر کو منتقل کیے تھے یا نہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ نعیم بخاری اس نکتے پرعدالت کی معاونت کرینگے۔

اس موقع پر ن لیگی وکیل سے استفسار کرتے ہوئے جسٹس منیب نے کہا کہ ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق سات دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے، اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیرآئینی ہوگی؟۔ ن لیگی وکیل نے کہا کہ آٹھویں دن ووٹنگ غیرآئینی نہیں ہوگی۔ مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ کی ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہو سکتی۔ ججز کنڈکٹ پر بات نہ کرنا آئین اور اسمبلی قواعد کا حصہ ہے۔ اسمبلی کے رولز آئین پر عملدرآمد کیلئے بنائے گئے ہیں۔ ججز کنڈکٹ پر بات کرنے والا رکن آرٹیکل 68 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔ آئین کی خلاف ورزی کرنے والے رکن کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں۔ اسمبلی رولز آئین کے آرٹیکل 95 سے بالاتر نہیں ہو سکتے۔ ڈپٹی اسپیکر آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

جسٹس منیب نے کہا کہ آرٹیکل 95 میں صرف تحریک عدم اعتماد اور اس پر ووٹنگ کا ذکر ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے تمام طریقہ کار اسمبلی رولز میں ہے۔ جواباً مخدوم علی خان نے کہا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ اسپیکر کے علاوہ پورا ایوان وزیراعظم کیخلاف ہو۔ کیا ایوان خلاف ہو اور اسپیکر پھر بھی عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری سے پہلے اس کی وجوہات دیکھی جا سکتی ہیں؟۔ اس دوران ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کیلئے وجوہات بتانا ضروری نہیں ہے۔

ن لیگی وکیل کی بات پر جسٹس منیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کیلئے 20% ارکان کا ہونا ضروری ہے۔ اگر 20% منظوری دیں لیکن ایوان میں موجود اکثریت مخالفت کرے تو کیا ہوگا؟۔ جواب میں مخدوم علی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو اس پر ووٹنگ ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے لیگی وکیل کے بیان پر کہا کہ آئین کو رولز کے ذریعے غیر موثر نہیں بنایا جا سکتا۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے۔ وزیراعظم برقرار رہیں گے یا نہیں فیصلہ ایوان ہی کر سکتا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اصل سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے؟۔ اس پر ن لیگی وکیل کا کہنا تھا کہ غیرآئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے۔ ایک شخص ایوان کی اکثریت کو سائڈ لائن نہیں کر سکتا۔ جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ پہلے اس نقطے پر مطمئن کریں کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ صرف قواعد کی خلاف ورزی نہیں۔

مخدوم علی نے عدالت کے روبرو کہا کہ عدالت غیر قانونی اور آغیر آئینی اقدام پر جوڈیشل نظر ثانی کر سکتی ہے۔ اس پر جسٹس منیب نے بولا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اسپیکرز اپنے ایوان کے ماسٹرز ہیں۔ اختیارات کی تقسیم بھی آئین کی گئی ہے۔ کیا ڈپٹی اسپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے؟۔ اسمبلی رول 28 کے مطابق اسپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسپیکر کی عدم موجودگی میں ڈپٹی سپیکر ہی بااختیار ہوتا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر بے اختیار ہے تو عدم اعتماد کی منظوری کی رولنگ کیسے دے گا؟۔

عمران خان کی جانب سے امتیاز صدیقی عدالت میں پیش ہوئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ عمران خان وزیراعظم ہی نہیں تو ان کی نمائندگی کیسے کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام وکلاء کل دلائل مکمل کریں توپرسوں مجھےموقع دیا جائے، یہ میری زندگی کا اہم ترین کیس ہے، قومی اہمیت کا کیس ہے عدالت کی تفصیلی معاونت کرنا چاہتا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ نگراں حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے،کوشش ہے کہ کل فیصلہ سنادیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے ابھی تک پنجاب پرکوئی باضابطہ حکم جاری نہیں کیا،اتنا بتا دیں کہ کل بروز بدھ پنجاب میں وزیراعلیٰ کا الیکشن ہوگا یا نہیں؟۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں بھی جمہوریت کا مذاق بنایاجارہا ہے،حکومتی اراکین کوہوٹلوں میں قید رکھا گیا ہے،اسپیکر پنجاب اسمبلی آئین کی مکمل پاسداری کرینگے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن آئین کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ نئےوزیراعلیٰ کے انتخاب تک عثمان بزدار کام جاری رکھے ہوئے ہیں،پنجاب اسمبلی اور ہوٹلز میں جو ہورہا ہے عدالت اس کی انکوائری کرائے۔

جسٹس جمال نے ریمارکس دئیے کہ حکومت اور اپوزیشن لڑرہی ہے اور یہ معاملہ ہمارے گلےڈالا جا رہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کل دوران سماعت پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی اپ ڈیٹ لیں گے۔گزشتہ روز 4 اپریل بروز پیر سماعت کا آغاز ہوا تو پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میں اپنی جماعت سے کچھ ہدایات لے کر آیا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پہلے درخواست گزاروں کو سننا چاہتے ہیں البتہ آپ نے کچھ بیان دینا ہے تو وہ دے دیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 21 مارچ 2022 کے فیصلےکا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ کسی رکن اسمبلی کو آنے سے نہیں روکا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کو نوٹس نہیں کیا تھا۔

جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ بحث کرائے بغیر ووٹنگ پر کیسے چلے گئے، عدالت ہوا میں فیصلہ نہیں کرے گی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی سوالات کے جوابات دینا ہوں گے، ہم بھی جلد فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔

پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے وکیل فارق ایچ نائیک نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ عدالت کے سامنے آئینی سوالات لائیں ، عدالت بہتر سمجھے گی توفل کورٹ بنانے دیں گے ، فل کورٹ تشکیل دینے سے دیگر کام متاثر ہوں گے۔ چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ آپ کو اس بینچ پر مکمل اعتماد نہیں توب تائیں، جس پر پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ بینچ پر مکمل اعتماد ہے۔جسٹس عطا بندیال نے کہ تو پھر آپ دلائل شروع کریں یہ بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے، قومی اسمبلی میں جو ہوا اس کی آئینی، قانونی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایا تھا کہ جب عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کی اجازت مل جائے اس کے بعد اسے منظور یا مسترد کرنے کا اختیار اسپیکر کے پاس نہیں رہتا بلکہ یہ ایوان کا اختیار ہے کہ وہ ووٹنگ کے ذریعے اس پر فیصلہ کرے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا موقف ہے کہ اسپیکر آرٹیکل پانچ کا حوالہ بھی دے تو تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں کرسکتا؟۔

فاروق نائیک نے کہا کہ صدر نے عبوری حکومت کے قیام تک عمران خان کو کام جاری رکھنے کا کہا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کو نگران حکومت کے قیام کے لیے خط لکھ دیا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ آج ہی سماعت مکمل کریں اور فیصلہ دیں۔

عدالت نے رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں پارلیمانی کمیٹی کا بھی ذکر ہے۔ اپوزیشن نے جان بوجھ کر کمیٹی میں شرکت نہیں کی۔ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں سارا معاملہ رکھا گیا تھا۔ آپ نے ہمیں بتانا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی کی کیا قانونی حیثیت ہے؟ پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی کی بنیاد پر ایوان کی کارروائی پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایک اہم آئینی معاملہ ہے اس پر جلدی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے بعد میں بھی اثرات ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے دوسرے فریق کو بھی سننا ہے۔ ان کو سنے بغیر ہوا میں فیصلہ نہیں دے سکتے۔چیف جسٹس نے ججز سے مشاورت کرکے کارروائی کل تک ملتوی کر دی۔ عدالت اس پر کل پھر 12 بجے سماعت کرے گی۔

اس سے قبل چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے حکم نامہ جاری کیا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 استعمال کرتے ہوئے بادی النظر میں نہ تحقیقات کے نتائج حاصل کیے اور نہ متاثرہ فریق کو سنا۔عدالت جائزہ لے گی کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے اقدام کو آئینی تحفظ حاصل ہے؟۔

سپریم کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ کوئی ریاستی ادارہ اور اہل کار کسی غیر آئینی اقدام سے گریز کرے، صدر اور وزیر اعظم کا جاری کردہ کوئی بھی حکم سپریم کورٹ کے حکم سے مشروط ہو گا۔ عدالت نے سیکرہٹری داخلہ اور دفاع کو امن و امان قائم کرنے کے لیے اقدامات کی رپورٹ جمع کرانے کی بھی ہدایت کی تھی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے حکومت کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے اقدامات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ان اقدامات کے خلاف پیپلزپارٹی کے رہنما نیئر بخاری کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، عدالتی عملہ چھٹی والے روز اتوار 3 اپریل کو سپریم کورٹ پہنچا اور اپوزیشن کی درخواستیں وصول کیں۔اس موقع پر سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان نے ملک کی موجودہ صورتحال کا نوٹس لیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے