کسی کے سامنے جھکا اور نہ قوم کو اپنی جھکنے دوںگا: وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب
ا سلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ خود داری ایک آزاد قوم کی نشانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے لیے فیصلہ کن وقت ہے۔ میں کسی کے سامنے جھکا اور نہ اپنی قوم کو جھکنے دوں گا۔ قوم سے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہم زمین پر چیونٹیوں کی رینگ رہے ہیں، میں نے ہمیشہ کہا تھا نہ میں کبھی کسی کے سامنے جھکوں گا اور نہ کسی کے سامنے جھکنے دوں گا۔ 25 سال سے یہی میرا موقف تھا، جب اقتدار مجھے ملا تو فیصلہ کیا خارجہ پالیسی آزاد ہو گی، خارجہ پالیسی پاکستانیوں کے لیے ہو گی۔ اس کا مقصد کسی کا ساتھ دینا نہیں تھا۔ میں بھارت، امریکا اور برطانیہ کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں، بھارت میں بہت کرکٹ کھیلی، امریکا میں سیاستدان میرے بہت دوست ہیں جبکہ برطانیہ میں میری ابتدائی زندگی گزری۔ پرویز مشرف دور میں مجھ سمیت تمام سیاستدانوں کو بریفنگ دی جس میں کہا گیا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں نہ گئے تو امریکا ہمیں پتھر کے دور میں بھیج دے گا لیکن میں نے اس وقت بھی اس جنگ کے خلاف بیان دیا تھا۔ کیا ہم اپنے لوگوں کو قربان کروائیں۔ 80ء کی دہائی میں ساری جہاد قبائلی علاقوں میں لڑی گئی۔ ہمیں بتایا گیا کہ افغانستان میں غیر ملکی قبضہ ہو رہا ہے جس کے لیے ہم انہیں بچانا چاہتے ہیں، جنگ ہارنے کے بعد امریکا نے ہم پر پابندیاں لگا دیں۔ اس دوران پاکستانیوں نے بہت قربانیاں دیں، اس دوران کسی بھی ملک نے اتنی قربانیاں نہیں دیں۔ قبائلی علاقہ پاکستان میں سب سے زیادہ پر امن علاقہ تھا، وہاں پر جرائم نہیں ہوتے تھے، وہاں پر دہشتگردی کیخلاف جنگ شروع کی گئی، ہمارے لوگ مارے گئے۔ ہمارے لوگوں نے جہاد سمجھ کر پاکستان کیخلاف جنگ لڑنا شروع کر دی۔ پرانا جہادی بھی پاکستان کیخلاف ہو گئے۔ نائن الیون میں کوئی پاکستانی شامل تھا۔ ہمیں کہا گیا کہ پاکستان کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے امریکا افغانستان نہیں جیت پا رہا، ڈرون اٹیک ہوئے بہت نقصان ہوا، باجوڑ میں مدرسے کے بچوں پر ڈرون اٹیک ہوئے جس میں 80 بچے شہید ہوئے، دیگر علاقوں میں شادیوں پر بھی ڈرون حملے کیے گئے۔ میں جب کہتا تھا یہ جنگ ہماری نہیں تو لوگ ہمیں طالبان خان کہتے تھے، میں نے وزیرستان مارچ کیے، امریکا سمیت باہر سے لوگوں نے میرے مارچ کی حمایت کی۔ ہماری حکومتوں نے امریکا کا ساتھ دیا جس کے باعث وہ ہم پر حملہ کرتے تھے، مجھے حکومت ملی تو میں نے پہلے دن کہا تھا پاکستان کی پالیسی عوام کے مفاد میں ہو گی اور یہ پالیسی آزاد ہو گی۔ میری پالیسی، بھارت سمیت کسی کے خلاف نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میرے پاکستانیو میں نے آپ سے بہت اہم بات کرنی ہے، اس لیے میں نے براہِ راست خطاب کرنے کا فیصلہ کر لیا، پاکستان اس وقت فیصلہ کن وقت پر ہے، ہمارے پاس دو راستے ہیں، ہمارے پاس ہے کہ کونسے راستے پر جانا ہے۔، سیاستدانوں کی زندگی دیکھیں تو ان کو پہلے کوئی نہیں جانتا تھا، قائداعظم محمد علی جناحؒ بہت بڑے سیاستدان تھے، سارے ہندوستان میں سب سے بڑے وکیل سمجھے جاتے تھے، ان کی حیثیت تھی سیاستدان میں آنے کی، ہمارے ہاں سیاستدانوں کو ماضی میں کوئی نہیں جانتا تھا، مجھے اللہ نے سب کچھ دیا، شہرت دی، ضرورت سے زیادہ پیسہ دیا، لیکن میں پاکستان کی پہلی نسل تھا، پاکستان مجھ سے صرف پانچ سال بڑا ہے۔ میرے والدین غلامی کے دور میں پیدا ہوئے تھے، میرے والدین مجھے احساس دلاتے تھے کہ تم بہت خوش قسمت ہو۔ میرے ملک وہ ملک نہیں بن سکتا جس کا خواب قائداعظم ؒ اور علامہ اقبال ؒ نے دیکھا۔عمران خان نے کہا کہ میں نے پچیس سال پہلے سیاست شروع کی تو تین چیزیں منشور میں رکھیں، انصاف، انسانیت میرے دو خواب تھے اور میرا تیسرا خواب خودداری تھا۔ پاکستان کا مطلب لا الہ اللہ تھا، اس کا مطلب کسی کے آگے جھک جانا شرک ہے۔ پیسے کی غلامی اور خوف کی غلامی شرک ہے۔ لا الہ اللہ انسان کو خوف سے آزاد کرتا ہے۔ میرے اندر ایمان نہ ہوتا تو میں سیاستدان میں نہ آتا۔ سیاست میں آنے سے پہلے 14 سال میرے ساتھ محض چند لوگ تھے، میں سیاست میں نظریہ کے لیے آیا تھا۔ ریاست مدینہ مسلمانوں کیلئے رول ماڈل ہے، طاقتور اور غریب کیلئے الگ الگ قانون ہو تو وہ قوم تباہ ہوجاتی ہے، ریاست مدینہ میں قانون کی حکمرانی تھی، جہاں انصاف نہ ہو وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔