(ق)لیگ کیساتھ بات چیت جاری رکھنے کی گنجائش موجود ہے، مولانا فضل الرحمن
اسلام آباد (ڈیلی گرین گوادر)بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ اپوزیشن قیادت کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ ہم متحدہ اپوزیشن کی طرف نے بلوچستان کے 4 اراکین اسمبلی کا عدم اعتماد کی تحریک میں ہمارے ساتھ کھڑے ہونے پر ان کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم ان کو یقین دلاتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں جو فیصلہ کیا ہے وہ بطور جماعت کیا ہے، ہم اس کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہم ان کی توقعات پر پورا اتریں گے۔انہوں نے کہاکہ اس عدم اعتماد کے نتیجے میں جو حکومت بنے گی، ہم ان کو یقین دلاتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کی محرومیاں، ان کی مشکلات اور مسائل کے حل کے لیے صدق دل کے ساتھ ان کے ساتھ کام کریں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ ان کو یقین دلاتے ہیں کہ اس وقت انہوں نے متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کے نتیجے میں ہم بلوچستان اور پاکستان عوام کے مفاد میں ان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے اور ساتھ دیں گے۔اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ یہ ان کی مہربانی ہے کہ میرے پاس آئے اور مجھے عزت دی اور ان سے مذاکرات کیے اور انہیں سمجھایا کہ بلوچستان کی اگر کوئی خدمت کرسکتا ہے تو اس وقت ہم اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے جو لوگ ہیں وہی کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان ہے تو پاکستان ہے، اگر بلوچستان نہیں ہے تو پاکستان نہیں ہے، اس لیے ہم ان کی مجبوریوں اور ان کے دکھوں کو اس مقام پر جا کر ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک دفعہ پھر جہاں سے سلسلہ ختم ہوا تھا وہاں سے شروع کریں۔آصف زرداری نے کہا کہ ابھی عدم اعتماد کا موسم ہے تو بہت جلدی ہم شہباز شریف کو وزیراعظم بنائیں گے اور بلوچستان سے وزیر لیں گے۔اس موقع جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ خالد مگسی اور بلوچستان سے قومی اسمبلی کے وہ اراکین جنہوں نے متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دیا ہے، ان کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کی پارلیمانی بنیاد یا خیبرپختونخوا صوبہ ہے یا بلوچستان ہے، بلوچستان کے براہ راست منتخب نمائندگان صوبے کی ترقی کے لیے گامزن ہے اور ہم اس حوالے سے خود بلوچستان کی ترقی کے مدعی اور ان کے شانہ بشانہ ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی نے کہا کہ آج بڑا اہم دن ہے، سارے مراحل پارٹی کے اراکین کے ساتھ مشاورت سے گزرے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس وقت ہمارے لیے موقع ہے کہ متحدہ اپوزیشن پچھلے تجربات کے بعد ایک نئے ارادے کے ساتھ آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کی دعوت قبول کیا اور ہم چاہتے تھے کہ نئے انداز میں اس ملک کو سنبھالا جائے اور بلوچستان پر پوری طرح توجہ دی جائے اور اس کے مسائل حل کیے جائیں اور لٹکا کر نہ رکھا جائے۔خالد مگسی نے کہا کہ اسی بنیاد پر ہم نے سوچا کہ ایک قدم اٹھاتیہ یں کیونکہ ہم نے پہلے ساڑھے تین سال گزارے لیکن اس وقت گلہ شکوہ کرنا مناسب نہیں تاہم فیصلہ اچھی نیت سے کیا۔بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اخترمینگل نے کہا کہ خالد مگسی اور قومی اسمبلی کے دیگر اراکین کی جانب سے اس اہم موقع پر اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس پر میں ان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت میں بلوچستان کے مسئلے کو پہلے بھی اجاگر کیا تھا اور جس انداز میں ہمیں نظر انداز کیا گیا، بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے بجائے ہمارا مذاق اڑایا گیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے آج بلوچستان کے مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے اپوزیشن شرکت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے جس مقصد کیلئے تحریک عدم اعتماد کا اعلان کیا تھا تو اس پر ووٹ میں تاخیر کیلئے تمام حربے استعمال کیے گئے لیکن جتنی تاخیر کی گئی حکومت کی تعداد میں کمی آگئی ہے۔ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ (ق)لیگ کیساتھ بات چیت جاری رکھنے کی گنجائش موجود ہے، پہلے ق کے پاس سات اور باپ کے پاس پانچ ارکان تھے، اب ق کے پاس پانچ اور باپ کے پاس سات ارکان ہیں۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ اپوزیشن کے نمبر شروع سے پورے ہیں، ہم نے یہ کام اتحادیوں کے ساتھ مل کر کرنا ہے، سیاسی اختلافات تو چلتے رہتے ہیں، ہماری تعداد پوری ہے اور اب ہمارے نمبر بڑھتے جارہے ہیں۔