علمی مزاحمت سے ہی ہم اپنی چھینی گئی شناخت کا دفاع کرسکتے ہیں،نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان پیس فورم کے سربراہ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ایک علمی جدوجہد اور تحریک کا آغاز کرکے سماج کو کتاب کیساتھ منسلک کیا جائے، علمی مزاحمت سے ہی ہم اپنی چھینی گئی شناخت کا دفاع کرسکتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے سریاب لٹریری فیسٹیول اینڈ میگا بک فیئر میں نوجوان اور عصر حاضر کے تقاضے کے عنوان سے منعقد مکالمہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ مکالمے سے پروفسیر منظور بلوچ، عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے بھی خطاب کیااس موقع پر بلوچستان پیس فورم کے وائس چیئرمین ظفر صدیق ودیگر بھی موجود تھے، مکالمے سے خطاب کرتے ہوئے نوابزادہ حاجی میرلشکری خان رئیسانی نے لوڑ کاریز سریاب پبلک لائبریری میں منعقدہ کتب میلہ کو اپنے لیے حوصلہ افزاء قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہم بحیثیت قوم اخلاقی سیاسی وقومی زوال کی طرف جارہے ہیں اس سے نکلنے کیلئے بلوچستان میں ایک علمی جدوجہد اور تحریک کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے سماج کو تنازعات اور افراتفری سے نکال سکیں اور شکایات کرنے کی بجائے ایک مہذب قوم کی تشکیل کیلئے صوبے میں علمی مزاحمت کو تیز کیا جائے تاکہ خود کو درپیش قومی بحرانوں کا خاتمہ کر کے ہم مہذب اقوام میں شامل ہوں اس سلسلے میں ہر فرد کواپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لوگوں کی توجہ حقیقی معاملات، حقوق، عزت، وقار اور سرزمین سے ہٹانے کیلئے افراتفری پھیلا کرریاست نے شارٹ کٹ کا نظریہ ایجاد کیا ہر کوئی شار ٹ کٹ کے ذریعے آگئے بڑھنا چاہتا ہے بدقسمتی سے یہ رجحان سیاست کے بعد اب ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی فروغ پارہا ہے بچوں کارجحان تعلیم کی بجائے نقل پر ہے، شرکاء کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بحیثیت قوم ہم نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی کہ ہماری پسماندگی کا ذمہ دار کون ہے صوبے کی پسماندگی کا ذمہ دار سردار کو ٹھہرا کر بلوچ قوم کوایک قومی جدوجہد سے نکال کر طبقاتی جنگ میں ڈالاگیا ہماری پسماندگی ا ور بدحالی کا الزام ایک طبقہ پر ڈالنے والوں سے میرا سوال ہے واپڈا، اسٹیل مل، ریلوے کو کس نے تباہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں پارلیمنٹ کو مفلوج کرنے والوں نے بلوچستان میں سیاسی گروہ ایجاد کئے ہیں جو خفیہ فیصلہ کرتے ہیں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس بھی کوئی اقتصادی، سیاسی سماجی منشور نہیں سیاسی جماعتیں حادثات اور سازشوں کی پیداوار ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے