پی ٹی آئی کا ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوسناک ہے، جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے،سپریم کورٹ

اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر) سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوس ناک ہے اور جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن ، جے یو آئی اور سپریم کورٹ بار نے صدارتی ریفرنس کے تحریری جوابات جمع کرادیے۔

عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومتیں بھی تحریری جوابات جمع کروائیں، اس سے سماعت میں آسانی ہوگی۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت چاہیے گی کہہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں گی، معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہو گی، تمام جماعتیں جہموری اقدار کی پاسداری کریں۔

جے یو آئی کے وکیل نے کہا کہ ہمارا جلسہ اور دھرنا پرامن ہوگا۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں۔ اس آبزرویشن پر عدالت میں قہقہہ لگا۔ اٹارنی جنرل بولے کہ جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوس ناک ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے ۔

اٹارنی جنرل نے 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ ہاؤس میں حکومتی اراکین نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا کہا، آرٹیکل 63A کے تحت اراکین پارٹی ہدایات کے پابند ہیں، وزیراعظم کے الیکشن اور تحریک عدم اعتماد میں ارکان پارٹی پالیسی پر ہی چل سکتے ہیں، آرٹیکل 63A کی سرخی ہی نااہلی سے متعلق ہے، نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے، پارٹی میں بات نہ سنی جا رہی ہو تومستعفی ہوا جا سکتا ہے، مستعفی ہوکر رکن اسمبلی دوبارہ عوام میں جا سکتا ہے، معاملہ صرف 63A کی تلوار کا نہیں پورا سسٹم ناکام ہونے کا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور قانونی محرکات الگ ہیں، سیاسی اثر تو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا، دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کا حق اراکین اسمبلی کو ہے نہ کہ پارٹی اراکین کو، کیا اراکین پارٹی کیساتھ اپنے حلقوں کو جوابدہ نہیں ؟، پارٹی ڈسپلن کی پابندی کس کس حد تک ہے؟۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چار مواقع پر اراکین اسمبلی کا پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی ہے، پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی بنانے کے لیے آرٹیکل 63A لایا گیا، کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے، زیادہ تر جہموری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں، کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جاسکتا ہے؟، اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چئیر ہی چلتی رہے گی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں، ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو تو سیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی، سب نے اپنی مرضی کی تو سیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی، انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں، آئین میں پارٹی سربراہ نہیں پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنایا گیا ہے، پارٹی کی مجموعی رائے انفرادی رائے سے بالاتر ہوتی ہے، سیاسی نظام کے استحکام کے لیے اجتماعی رائے ضروری ہوتی ہے، پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کے لیے آرٹیکل 63 Aشامل کیا گیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا فلور کراسنگ کی اجازت دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے، کیا آپ پارٹی لیڈر کو بادشاہ سلامت بنانا چاہتے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کسی کو بادشاہ نہیں تو لوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے، مغرب کے بعض ممالک میں فلور کراسنگ کی اجازت ہے، لیکن مغرب میں کرسمس سے پہلے قیمتیں کم اور یہاں رمضان سے پہلے مہنگائی ہو جاتی ہے، ہر معاشرے کے اپنے ناسور ہوتے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا سیاسی جماعتوں کے اندر بحث ہوتی ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس سے زیادہ بحث کیا ہو گی کہ سندھ ہاؤس میں بیٹھ کر پارٹی پر تنقید ہورہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جتنا مرضی غصہ ہو پارٹی کیساتھ کھڑے رہنا چاہیے، مغرب میں بھی لوگ پارٹی کے اندر ہی غصے کا اظہار کرتے ہیں، ووٹ ڈال کر شمار نہ کیا جانا تو توہین آمیز ہے، آرٹیکل 63A میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے، اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے، ایسے معاملات ریفرنس کی بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے، یہ ضمیر کی آواز نہیں کہ اپوزیشن کیساتھ مل جائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان میں بھی تو اپنے ہی لوگوں نے عدم اعتماد کیا اور حکومت بدل گئی تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بلوچستان میں دونوں گروپ ہی باپ پارٹی کے دعویدار تھے، پارٹی ٹکٹ پر اسمبلی آنے والا پارٹی ڈسپلن کا پابند ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے اور ووٹ اگر ڈل سکتا ہے تو شمار بھی ہو سکتا ہے، اگر اس نقطہ سے متفق ہیں تو اس سوال کو واپس لے لیں۔عدالت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر صدارتی ریفرنس کی سماعت کل دوپہر ڈیڑھ بجے تک ملتوی کردی۔

علاوہ ازیں سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس میں فریق بننے کی درخواست دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں، مجھے معاون بنایا جائے۔سپریم کورٹ رضا ربانی کی عدالتی معاون بننے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ سیاسی جماعت کے رہنما ہیں عدالتی معاون نہیں بن سکتے، البتہ آپ کا موقف ضرور سنیں گے۔

سپریم کورٹ بار نے عدم اعتماد کی تحریک میں رکن پارلیمان کے ووٹ کے حق کو انفرادی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ ڈالنا رکن قومی اسمبلی کا انفرادی حق ہے اور کسی سیاسی جماعت کا حق نہیں۔

سپریم کورٹ بار نے جواب میں کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ڈالا گیا ہر ووٹ گنتی میں شمار ہوتا ہے، ہر رکن قومی اسمبلی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے میں خودمختار ہے۔جواب میں کہا گیا کہ کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکا نہیں جاسکتا، عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے نظام حکومت چلاتے ہیں۔ آرٹیکل 63 کے تحت کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے پہلے نہیں روکا جاسکتا، آرٹیکل 63 اے میں پارٹی ڈائریکشن کیخلاف ووٹ ڈالنے پر کوئی نااہلی نہیں۔

جے یو آئی نے جواب میں کہا کہ پی ٹی آئی میں پارٹی الیکشن نہیں ہوئے جماعت سلیکٹڈ عہدیدار چلا رہے ہیں، جو آرٹیکل 63 اے کے تحت ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے کی ہدایت نہیں کر سکتے۔ اسپیکر کو اراکین کے ووٹ مسترد کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا اور آرٹیکل 63 اے پہلے ہی غیر جمہوری ہے، آزاد جیت کر پارٹی میں شامل ہونے والوں کی نشست بھی پارٹی کی پابند ہو جاتی ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ ریفرنس سے لگتا ہے صدر ، وزیراعظم اور اسپیکر ہمیشہ صادق اور امین ہیں اور رہیں گے، پارٹی کیخلاف ووٹ پر تاحیات نااہلی کمزور جمہوریت کو مزید کم تر کرے گی۔جے یو آئی نے کہا کہ لازمی نہیں کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی ریفرنس پر رائے دی جائے، کسی رکن کیخلاف نااہلی کا کیس بنا تو سپریم کورٹ تک معاملہ آنا ہی ہے، سپریم کورٹ نے پہلے رائے دی تو الیکشن کمیشن کا فورم غیر موثر ہو جائے گا، عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی ختم کرنے سے اجتناب کرے۔

مسلم لیگ ن نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس کو عدالت کے قیمتی وقت کا ضیاع قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے اور 95واضح ہے، ہر رکن کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، جو گنتی میں شمار بھی ہوگا، صدارتی ریفرنس قبل از وقت اور غیر ضروری مشق ہے، سپریم کورٹ کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار ہے آئینی ترمیم کا نہیں۔

پی ٹی آئی نے جواب میں کہا کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹ کی انفرادی حثیت نہیں ہوتی۔تحریک انصاف نے تاحیات نااہلی پر کوئی رائے نہیں دیتے ہوئے کہا کہ تاحیات نااہلی پر عدالت جو بھی رائے دے اس پر مطمئن ہوں گے، الیکشن کمیشن عدالتی رائے کے نتیجے میں اس پر عملدرآمد کا پابند ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے