سپریم کورٹ نے سیاسی قیادت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے، چیف جسٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ کسی ایونٹ کی وجہ سے کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ ہو۔سپریم کورٹ میں سیاسی جماعتوں کو جلسوں سے روکنے کیلئے سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

سپریم کورٹ بار کے وکیل نے کہا کہ اسپیکر نے 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہے حالانکہ آرٹیکل 95 کے تحت 14 دن میں اجلاس بلانا لازم ہے، 14 دن سے زیادہ اجلاس میں تاخیر کرنے کا کوئی استحقاق نہیں، تمام ارکان اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کی وجہ کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ ہو، یہ تمام اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے، عدالت ابھی تک اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت کرنے پر قائل نہیں، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں، عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو، یہ تمام نکات اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے، جس کے تحت سیاسی جماعت کے حقوق ہوتے ہیں۔ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے، آرٹیکل 95 دو کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حثیت نہیں، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے، آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے، بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ تو بتا دیں؟۔

بار کے وکیل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسمبلی اسپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتحاب کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ بار چاہتی ہے کہ ارکان جس کو چاہیے ووٹ ڈالیں، سوال یہی ہے کہ ذاتی چوائس پارٹی موقف سے مختلف ہو سکتی یا نہیں؟، ووٹ کا حق کسی رکن کا absolute نہیں ہوتا۔

بار کے وکیل نے آرٹیکل 66 کا بھی حوالہ دیا جس پر جسٹس منیب اختر نے ٹوکا کہ آرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کا حق کیسے مل گیا؟ یہ تو پارلیمانی کاروائی کو تحفظ دیتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل سے کہا کہ آپ بار کے وکیل ہیں آپ کا اس عمل سے کیا تعلق؟، بار ایسوسی ایشن عوامی حقوق کی بات کرے۔بار کے وکیل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد بھی عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار پوچھ رہے ہیں سندھ ہاؤس میں کیا ہوا؟ بار ایسوسی ایشن کو سندھ ہاؤس پر بات کرتے ہوئے خوف کیوں آرہا ہے؟ بار کو عدم اعتماد کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں۔ چیف جسٹس آئی جی اسلام آباد سے پوچھا کہ کیا دفعہ 144 لگ گئی ہے؟، رپورٹ کے مطابق شام 5.42 بجے 35 سے 40 مظاہرین سندھ ہاؤس پہنچے تھے۔

آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی دفعہ 144 نافذ ہے، ریڈ زون کے اطراف تک دفعہ 144 کا دائرہ بڑھا دیا ہے، مظاہرین چھتے کی صورت میں سندھ ہاؤس نہیں آئے تھے، پولیس نے دو اراکین اسمبلی سمیت 15 افراد کو گرفتار کیا گیا، پھر جے یو آئی نے بھی سندھ ہاؤس جانے کی کوشش کی، تو پولیس نے بلوچستان ہاؤس کے قریب جے یو آئی کارکنان کو روکا، سندھ ہاؤس واقعے پر شرمندہ ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہاؤس واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتا، بلکہ اصل چیز اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے، ڈی چوک پر ماضی قریب میں بھی کچھ ہوا تھا جس کے تاثرات سامنے آئے، ہفتے کو کیس سننے کا مقصد سب کو آئین کے مطابق کام کرنے کا کہنا تھا، دیکھیں سندھ ہاؤس حملے کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں، سیاسی جماعتیں بتائیں وہ کیا چاہتی ہیں، پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ہے، رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی ایکشن لے گی، عدالت نے سیاسی قیادت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے ، حساس وقت میں مصلحت کیلئے کیس سن رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ سندھ ہاؤس پر حملے کا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا، میں نے وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا، اس پر وزیر اعظم نے کہا پرتشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، سندھ ہاؤس واقعے کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے جس کو شیکایت ہے وہ متعلقہ فورم سے رجوع کریں، سندھ ہاؤس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، او ائی سی کانفرنس کی وجہ سے ریڈ زون حساس ترین علاقہ ہے، ہمیں سپریم کورٹ بار کی استدعا سے کوئی اختلاف نہیں، وزیراعظم سے گفتگو کے بعد عدالت کو کچھ باتیں واضح کرنا چاہتا ہوں، قومی اسمبلی اجلاس کے موقع پر کوئی جتھہ اسمبلی کے باہر نہیں ہو گا، کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا، کئی سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے بیانات دیے ہیں، ہم پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کررہے ہیں، عوام کو اسمبلی اجلاس کے موقع پر ریڈزون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے