ملک میں آئین اور جمہوریت کاوجود نہیں بلکہ زبردستی کے ذریعے ملک چلایا جارہا ہے،محمود خان اچکزئی

بنوں (ڈیلی گرین گوادر)پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اورپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی نائب صدر محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک میں آئین اور جمہوریت کاوجود نہیں بلکہ زبردستی کے ذریعے ملک چلایا جارہا ہے، افغانستان کے استقلال، ملی حاکمیت اور ارضی تمامیت کی حفاظت ہرافغان حکومت کا اولین فریضہ ہے،موجودہ حکومت کا فرض اولین ہے، افغانستان میں طاقت کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی کے طریقہ کار کو ختم کرنا ضروری ہے افغانستان کے تمام سیاسی پارٹیوں سمیت تمام سول سوسائٹی کے تنظیموں اور دنیا بھر میں موجود پشتون افغان عوام کو افغان متحدہ محاذ بناکر متحدہونا ہوگا، تاریخی پشتون قومی جرگہ ہماری رہنمائی کریں اور اپنے اہداف کے حصول کیلئے متحد ومنظم ہوکر جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ ملکی آئین کو ہم مانتے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ او ر جاسوسی اداروں نے سیاست میں مداخلت ختم کرنی ہوگی، خواتین کو جائیدادوں میں عملاْ حصہ دیکر ان کو معاشی طورپر مضبوط بنایا جاسکتا ہے،قرآن پاک کا حکم ہے کہ ہر باپ کے جائیداد میں بیٹی کا حق ہے خواتین ماں،بہن، بیٹی اور بیوی جیسے مقدس رشتوں کے مالک ہیں اوران کی ایمانداری اور وفاداری مسلمہ ہے، پاکستان ایک رضاکارانہ فیڈریشن ہے اس میں کوئی مفتوح اور کوئی فاتح نہیں اور اس میں آباد اقوام اپنے اپنے تاریخی سرزمین پر آباد ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بنوں میرعلی خیل کرکٹ گراؤنڈ میں پشتون قومی جرگے کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پشتون قومی جرگے کے گیارہ،بارہ، تیرہ اور چودا مارچ تک 10سیشنز منعقد ہوئے جبکہ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین جناب محمود خان اچکزئی نے آخری سیشن میں جرگے کا اعلامیہ جرگے کے شرکاء کے سامنے پڑھ کر سنایا اور ان کی منظوری لی گئی۔ محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 23مارچ 1940کے قرار داد کے مطابق ہر قوم کے اکائی کو خودمختار اور بااختیار تسلیم کیا گیا تھااور اس قرار داد سے روگردانی کے نتیجے میں ملک کو سخت نقصان پہنچا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ اب بھی آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی خودمختاری، سیاسی پارلیمانی جمہوری نظام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جاری ہیں اور اس غیر جمہوری طرز عمل سے ملک سنگین بحرانوں میں مبتلا ہوتا جارہا ہے اور اگر یہی منفی طرز عمل جاری رہا تو ملک کی بحرانی صورتحال شدید سے شدید تر ہوجائیگی۔ جب کہ ملک کے قیام کے بعد سالہا سال تک آئین بننے نہیں دیا گیا اور بنگال کی اکثریت کو پیرٹی کے اصول کے ذریعے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اورمغربی پاکستان کو ون یونٹ میں تبدیل کرنے کے باوجود بھی بنگال اکثریت میں تھا جبکہ اس غیر آئینی،غیر قانونی اور آمر حکمرانوں کیخلاف ہمارے اکابرین عبدالغفار خان (باچا خان) عبدالصمد خان اچکزئی (خان شہید) کی سرکردگی میں تاریخ ساز جدوجہد کی۔ اور جمہوریت، ون مین ون ووٹ مانگنے پر ہمارے رہنماؤں اور کارکنوں کو سالہا سال تک جیلوں میں بند رکھا گیاجبکہ ہم نے بحیثیت قوم ملک میں جہاں بھی سیاسی جمہوری نظام کیلئے آواز بلند کی تو ہمارے اکابرین اور رہنماؤں کو دفعہ 144کی خلاف ورزی پر بھی ہزاروں سال پابند سلاسل رکھا گیا۔ جبکہ دوسری جانب ملک کے آئین کو معطل یا منسوخ کرنے کی پاداش میں کسی بھی زور آزما پر آئین کے آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ قائم کرنے نہیں دیا گیا۔اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا گیا،علی وزیر جو اس وقت کراچی میں پابند سلاسل ہے ان کے خلاف الزام یہ ہے کہ اس نے نازیبا زبان استعمال کی ہے اور یہی نازیبا زبان اور گالم گلوچ تمام ملک میں جاری ہے جس پر کوئی قدغن نہیں اور نہ ہی آرٹیکل 6کی خلاف ورزی پر مقدمہ قائم ہواہے اور نہ ہی کوئی گرفتار ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نظریہ پاکستان ملک کے مظلوم اقوام بالخصوص پشتون ملت کی قرض دار ہے اگر پشتون ملت انگریز کیخلاف تاریخ ساز جدوجہد نہ کرتے اور قربانیاں نہیں دیتے تو پاکستان کا قیام ناممکن تھا۔ پشتونوں کی قربانی کے نتیجے میں پاکستان کا قیام ممکن ہوا اور ہم پاکستان کو توڑنا نہیں چاہتے لیکن یہ پشتون قومی جرگہ واضح کرتی ہے کہ پاکستان میں غلاموں کی حیثیت سے کبھی بھی نہیں رہینگے۔ ہمارا جرگہ طلب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پشتون قوم کے قومی وسائل قبضہ ہوچکے ہیں اور قبضے کی یہ صورت تسلسل سے جاری ہے جس کی وجہ سے پشتون غیور عوام دیار غیر میں ذلت آمیز مسافرانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جرگے کے شرکاء نے اپنے اعلامیہ میں پشتون قوم کے قومی وسائل کی نشاندہی کی اور ان کے قومی وسائل کا حصول پشتونوں کی ملی وحدت ملی تشخص اور قومی واک واختیار کے بغیر ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشتونوں کو ملک کے اندر سرومال کے تحفظ اور کاروبار وتجارت کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق سے محرومی اور بدترین قومی امتیاز کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی جمہوری جدوجہد اور عدم تشدد کے ذریعے اپنی سیاسی معاشی ثقافتی حقوق واختیارات چاہتے ہیں لیکن موجودہ ملکی صورتحال میں آئین کوئی وجود نہیں رکھتا ہے اور یہاں مارشلاء ہے میجر ضلع کرنل ڈویژن اور برگیڈیئر صوبے کے مالک بن بیٹھے ہیں اور یہ صورتحال ہمیں قابل قبول نہیں اگر کوئی پاکستان چلانا چاہتا ہے تویہ ملک اب بھی چلایا جاسکتا ہے اور کوئی ہمیں مجبور نہ کرے کہ ہم اپنے جرگوں سے رجوع کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دنیا والوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ جدید دنیا کہ اس دور میں آپ کو معلومات کے حوالے سے ہر قسم کے ذرائع موجود ہیں ہمارے پشتون افغان وطن امو سے لیکر مارگلا تک تاریخ میں حملہ آور آتے رہے ہیں اور ہم کبھی بھی کسی کے پیچھے نہیں گئے بلکہ پشتون افغان غیور ملت تمام انسانیت کو بھائی سمجھتے ہوئے کسی انسان سے مذہب، رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر نفرت نہیں کرتے اور تمام انسانیت کو حضرت آدم ؑ اور بی بی حوا انا کی اولاد سمجھتے ہیں اور دنیا کے نامور تاریخ دان پشتون افغان وطن اور اس کے غیور عوام کے متعلق لکھتے ہیں کہ پشتون وطن میں کھانا اور بسترہ مفت ہے۔اور یہ کہ کسی انسان سے نفرت نہیں کرتے اور ان تاریخ دانوں کی مکمل اکثریت غیر مسلموں کی ہیں۔ لہٰذا پشتون افغان ملت تاریخ میں کبھی بھی دہشتگرد اور فرقہ پرست نہیں رہے لیکن اپنے وطن اور اپنی عزت کی خاطرہمیشہ قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری سیاست سیاسی جدوجہد اور جرگے کی توسط سے جاری جدوجہد میں اگر کوئی بات خدانخواستہ اسلام اور پشتو کے اصولوں اور معیار کے خلاف رہی ہو تو ہر کوئی اس کی نشاندہی کرسکتا ہے اور ایسے ناروا عمل کو مسترد کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ پشتون قوم کو اتحاد واتفاق کے راستے پرگامزن ہوکر متحد ہونا ہوگا کیونکہ ہمارا وطن خدا کے دیئے ہوئے نعمتوں اور معدنی وسائل سے مالا مال ہے اور ظالم قوتوں کی نظریں ان نعمتوں پر ہیں۔ عراق،لیبیا اور شام کی صورتحال آپ کے سامنے ہیں ان کے گناہ ان کے تیل کے ذخائر تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علماء طالبان حکومت سے بات چیت کرتے ہوئے انہیں یہ بات سمجھائیں کہ دنیا اور خطے کے جابر قوتیں ہم اور آپ کوآرام سے جینے نہیں دینگے لہٰذا ضروری ہے کہ وقت اور حالات کا ادراک کرتے ہوئے نئی صف بندی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بنوں کے غیور عوام کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے پشتون قومی جرگے کے ہزاروں اراکین کی مہمان نوازی کا فرض ادا کرتے ہوئے تمام لوگوں کیلئے رہائش کا بندوبست کیا۔ اور بنوں کو تاریخ میں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس کے شہر میں تاریخ ساز جرگہ منعقد ہوا اور تاریخی فیصلے کیئے گئے۔ انہوں نے بنوں کے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کے تعاون کو سراہا اور اس تاریخی جرگے کیلئے مالی تعاون کرنیوالوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جرگے کے انتظامات کیلئے کام کرنیوالے تمام کمیٹیوں کے کارکنوں کے محنت کو ریکارڈ پر لانا ضروری ہے اور جرگے کی تمام کارروائی کو چھاپنے کے وقت ان بہادر کارکنوں کا اندراج اور ذکر ضروری ہے اور جرگے کی نمائندہ کمیٹی کے بننے کے بعد اس کے مرکزی دفتر کا تعین بھی کرینگے۔ انہوں نے جرگے میں شرکت کرنیوالے تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں، قبائلی عمائدین،علماء کرام، ادیبوں،شاعروں سمیت ہر مکتبہ فکر اور ہر پیشے کے نمائندوں کی پرجوش شرکت پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے