اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیکا آرڈیننس کے خلاف سماعت، اٹارنی جنرل سے دلائل طلب
اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر) پیکا ترمیمی آرڈی ننس کے خلاف پی بی اے، پی ایف یو جے سمیت دیگر صحافتی تنظیموں اور سینئر صحافیوں کی درخواست پر وکلا نے دلائل مکمل کر لیے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت پر 21 مارچ کو اٹارنی جنرل سے دلائل طلب کر لیے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈی ننس کے خلاف دائر تمام درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔ پی بی اے کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈی ننس کے آرٹیکل 44 اے کے تحت عدلیہ اور جج کی آزادی کو متاثر کیا۔ آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت آرڈی ننس صرف ہنگامی حالات میں جاری ہو سکتا ہے، آرڈی ننس کا اجرا ایگزیکٹو پاور ہے جو عدالتی نظرثانی سے مشروط ہے۔
انہوں نے صدر عارف علوی کے ٹویٹ کا اسکرین شاٹ پیش کیا اور بتایا کہ صدر مملکت نے 14 فروری کو 12:32 پر ٹویٹ کیا کہ 18 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے جبکہ 18 فروری کو صدر پاکستان نے پیکا ترمیمی آرڈی ننس جاری کردیا۔پی ایف یو جے کے وکیل عادل عزیز قاضی نے کہا کہ 18 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس شیڈول تھا جسے ملتوی کیا گیا، صرف اسی نکتے سے آرڈی ننس کے اجرا میں بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔
پی ایف یو جے کے وکیل ساجد تنولی نے کہا کہ لوگوں کی رائے دبانے کے لیے خصوصی قانون سازی کے ذریعے اس قانون کو لایا گیا، یہ قانون بنیادی حقوق اور آئین کی بعض شقوں سے متصادم ہے لہذا اسے کالعدم قراردیا جائے۔فرحت اللہ بابر کے وکیل بیرسٹر اسامہ خاور نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 اظہارِ رائے کی آزادی سے متعلق ہے مگر اس میں کچھ پابندیوں کا بھی ذکر ہے جو قومی مفاد، توہین اسلام، خودمختاری، توہین عدالت یا کسی کو جرم پر اکسانے جیسے معاملات پر ہیں۔