وزیر اعظم کا دورہ کراچی، ایم کیو ایم کا ساتھ مانگ لیا
کراچی: وزیر اعظم عمران خان نے ایم کیو ایم پاکستان کے بند دفاتر کھولنے کی یقین دہانی کرا دی۔وزیر اعظم عمران خان کی ایم کیو ایم پاکستان کے دفتر آمد کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی۔ موجودہ سیاسی صورتحال پر وزیر اعظم اور خالد مقبول صدیقی کے درمیان مکالمہ ہوا۔
وزیر اعظم عمران خان نے جواب دیا کہ حالات آپ کے سامنے ہیں ایم کیو ایم کا ساتھ چاہیے اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔خالد مقبول صدیقی نے وزیر اعظم عمران خان سے کہا کہ ہمارے دفاتر اب تک نہیں کھلے ہیں۔ جس پر وزیر اعظم نے ایم کیو ایم پاکستان کے بند دفاتر کھولنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ آپ کے دفاتر جلد کھل جائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد پر اتحادیوں کا اعتماد حاصل کرنے لیے کراچی پہنچے اور سب سے پہلے ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادر گئے۔اس موقع پر ان کے ہمراہ گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وفاقی وزراء بھی تھے۔وزیر اعظم عمران خان نے ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد پہنچنے کے بعد ایم کیوایم اراکین سے ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے ایم کیو ایم کے 4 رہنماؤں سے فردا ًفردا ًہاتھ ملایا۔ وزیر اعظم مصافحہ کے بعد خالد مقبول صدیقی کا ہاتھ تھامے رہے۔
وزیر اعظم سے ملاقات میں ایم کیو ایم کا کوئی رکن سندھ اسمبلی شامل نہیں تھا جبکہ وزیر اعظم عمران خان کے ہمراہ پی ٹی آئی کے 4 اراکین سندھ اسمبلی تھے جن میں حلیم عادل شیخ، بلال غفار، خرم شیر زمان اور ارسلان تاج تھے۔وزیراعظم سے گورنر ہاؤس میں پی ٹی آئی ارکان سندھ اسمبلی اور پارٹی رہنما ملاقات کریں گے۔ گورنر ہاؤس میں عوامی اجتماع میں شرکت اور خطاب کریں گے۔
وزیر اعظم عمران خان کی سربراہ فنکشنل لیگ سے ہونے والی ملاقات ملتوی ہو گئی۔ حلیم عادل شیخ کا کہنا ہے کہ پیر پگارا کی طبیعت ناساز ہے اور یونس سائیں شہر سے باہر ہیں۔وزیراعظم عمران خان ایم کیو ایم کے بہادر آباد مرکز جائیں گے۔واضح رہے کی اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کروائے جانے کے بعد سے ملک کی سیاست میں ہل چل عروج پر پہنچ گئی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن نے نمبر گیم پوری کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں سے رابطے اور ملاقاتیں تیز کر دی ہیں۔
ایک طرف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں مطلوبہ ووٹوں سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے پیش گوئی کی ہے کہ حکومت کہیں نہیں جارہی یہ اپوزیشن کی آخری واردات ہو گی اس کے بعد 2028 تک کچھ نہیں ہوگا۔