میلے تجارت،قومی یکجہتی اور ثقافت کے امین
تحریر تیمور خان کاکڑ
روایتی و تاریخی ثقافتی میلا مویشیاں واسپاں سبی 2022 اپنی تمام ترخوبیوں اور رعنائیوں کے ساتھ منقعد ہو رہا ہے جو کہ ہر سال فروری کی آخری ہفتے میں منعقد ہوا کرتا ہے امسال بھی یہ تاریخی و ثقافتی میلا چار مارچ سے شروع ہو کر آٹھ مارچ کو اپنی رعنائیوں کو سمیٹے ہوئے اختتام پذیر ہوگا۔جس کے افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی سینئر صوبائی وزیر بلدیات ولوکل گورنمنٹ سردار صالح محمد بھوتانی تھے جبکہ ان کے ہمراہ صوبائی وزیر تعلیم میر نصیب اللّٰہ خان مری، صوبائی وزیر ابپاشی میر محمد خان لہڑی، مشیر داخلہ ضیاء لانگو،پارلیمانی سیکرٹری مذہبی آمور ملک نعیم بازئی، ترجمان صوبائی حکومت محترمہ فرح عظیم شاہ چیف سیکرٹری مطہر نیاز رانا۔کمشنر سبی ڈویژن بالاچ عزیز، ڈپٹی کمشنر سبی سید زاہد شاہ و دیگر اعلیٰ سول و عسکری حکام موجود تھے اس کے علاؤہ قبائلی عمائدین اور عوام کی بھی کثیر تعداد موجود تھی۔
اس تاریخی و ثقافتی میلے میں روزانہ کروڑوں روپے کی تجارت مال و مویشیوں کے خریدوفروخت سمت مختلف مدات میں ہوتا ہے۔یوں تو یہ تاریخی و ثقافتی میلا مویشیوں کے خرید و فروخت کی غرض سے ہی منعقد ہوتا رہا ہے جن کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ مختلف تفریح ایونٹ بھی اس میلے کا انمٹ حصہ بن گئے ہیں۔ جس میں بچوں کی تفریح کے لیے چلڈرن اکیڈمی شو، خواتین کی تفریح کے لیے مینا بازار اورایک دن کا خصوصی لیڈز شو،عوامی تفریح کے لیے کلچر شو، فلاور شو اور آتش بازی کے شاندار مظاہرے، علاقائی و گھوڑا رقص،نیزہ بازی سمت دیگر تفریحی سرگرمیاں قابل ذکر ہیں۔
ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی میں میلوں کے انعقاد کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے کوئی بھی صعنت، تجارت یا کاروبار اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کی پیداوار کی باقاعدہ تشہیر نہ کی جائے در حقیقت اس طرح کے میلے تشہیر کی ہی زمرے میں آتے ہیں۔عوام کی نفسیاتی ضرورتوں، رجحانات،کمزوریوں اور رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنا اس جدید دور میں کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مختلف طبقات کونسے مصنوعات اور کیوں پسند کرتے ہیں؟ اس جیسے سوالات کے جوابات ماہرین فن تشہیر بہتر طور پر جانتے ہیں ماہرین فن تشہیر جن کے ہاتھ عامہ وقت اپنے صارفین کے نفس پر ہوتے ہیں اور وہی جانتے ہیں کہ عوام کو اپنی مصنوعات یا اپنے نقطہ نظر کی طرف مائل کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اور اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے؟مختلف انواع و اقسام کی مصنوعات کے آپس میں مسابقت کی وجہ سے اب صرف انھی مصنوعات کی مانگ برقرار رہے گی جن کے پشت پر ماہرین فن تشہیر کے مضبوط ہاتھ ہونگے۔یوں تو یہ تجارتی اور ثقافتی میلے اشیاء کی خریدوفروخت کے ساتھ ساتھ تشہیر کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوتے ہیں مگر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان میلوں کا بنیادی مقصد مصنوعات کا تعارف عوام سے کروانا ہوتا ہے بے شک کاروبار اور مال کا لین دین بھی میلوں کے انقعاد کا ایک مقصد ہوتا ہے لیکن یہ مقصد اتنا اہم نہیں ہے جتنا کہ پیداوار کی تشہیر مقصود ہوتا ہے۔
اگر کسی کمپنی یا جانور کے بہترین نمونوں کی نمائش سے ان میلوں میں شرکت کرنے والے درآمد کنندگان کے میں دلوں اپنا مقام پیدا کیا اور اپنی حیثیت منوانے میں کامیاب ہوا تو ان کے مستقل گاہک بن سکتے ہیں لہذا اصولی طور پر اس طرح کے ایونٹ میں زیادہ تر زور پبلسٹی اور تشہیر پر ہوتا ہے۔ میلوں میں شرکت فن تشہیر کے کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر بے مقصد اور بے معنی ہے۔ اس طرح کے ایونٹ میں لاکھوں اور کروڑوں روپے کے مصنوعات کی خرید و فروخت کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی جتنی کہ وہاں کے لاکھوں شائقین کے دلوں میں اپنی مصنوعات کے لیے اعلیٰ مقام پیدا کرنا اور اپنی حیثیت منوانا ہوتا ہے۔جس میں تعلقات عامہ کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ تعلقات عامہ کے کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے صوبائی پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات محترمہ بشرہ رند، سیکرٹری اطلاعات عمران خان کے مشاورت سے ڈی جی پی آر اورنگزیب کاسی نے سالانہ تاریخی و ثقافتی سبی میلہ مواشیاں واسپاں 2022 کی بہترین پبلسٹی اور تشہیر کے لیے نظامت تعلقات عامہ کی ایک بہترین اور محترک ٹیم تشکیل دی ہے جو اس ایونٹ کی پبلسٹی اور تشہیر کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرےگی اس ضمن میں نظامت تعلقات عامہ کا کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے جو ڈی جی پی آر اورنگزیب کاسی کی پیشہ وارانہ سرپرستی میں اس ایونٹ کو چار چاند لگانے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالےگی۔ مختصراً یہ کہ میلوں کے انقعاد کا بینادی مقصد تشہیر اور پبلسٹی ہی ہوتا ہے۔تشہیر کے ساتھ ساتھ اس طرح کے ایونٹ سے قومی یکجہتی اور ثقافتوں کو بھی فروغ ملتا ہے۔ان میلوں میں مختلف اقوام اور علاقوں کے لوگ شرکت کرنے آتے ہیں جو مختلف ثقافتوں کے امین ہوتے ہیں۔یوں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مجموعی ثقافت ایک جیسا ہی ہے مگر مختلف اقوام اور علاقوں کی ثقافتی رنگارنگی اور رعنائیوں سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔
میلوں میں اکھٹے شرکت کرنے سے ایک دوسرے کے ثقافتوں کو سمجھنے اور اپنانے کے مواقع بھی میسر آتے ہیں۔اسی طرح کے مشترکہ ایونٹ کے انعقاد سے دوسری زبانوں سے شناسائی اور واقفیت کے مواقع بھی مل جاتے ہیں۔جس کی بدولت کئی پاکستانی شہری اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ دیگر زبانیں بھی بولتے اور سمجھتے ہیں جس میں اس طرح کے ایونٹ کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔پاکستان جیسے ملک میں خاندان سے باہر شادی بیاہ کرنا تقریباً ناممکن تھا مگر اب مختلف ثقافتوں کے مل جل سے دیگر اقوام میں حتیٰ کہ دیگر صوبوں میں شادی بیاہ کے بندھن میں بندھنا اب کوئی خاص بات نہیں رہی۔ صرف چند ایک نہیں بلکہ کم و بیش تمام خطوں اور اقوام کے افراد اس طرح کے رشتے داریاں بنانے میں پیش پیش ہیں جس سے تمام اقوام رشتے داری اور تعلق کے کھڑی میں بندھے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے غم و خوشی اور دکھ سکھ بھی مشترک ہوتے جا رہے ہیں جس سے مثالی قومی یکجہتی قائم ہوگی اور ثقافتوں کو بھی فروغ ملے گا۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس میلے کو جاری و ساری رکھنا چاہئے بلکہ اس میں مزید وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صوبے کی معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکے اس کے ساتھ ساتھ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی اس طرح کے ایونٹ کا انعقاد صوبے کی معاشی ترقی کا ضامن بن سکتے ہیں۔