بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں متعدد قرار دادیں منظور،اسلام آباد میں طلباء پرتشدد کا توجہ دلاؤنوٹس نمٹا دیا گیا
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی اور ضلعی علماء و مشائخ کونسل کی تشکیل،بلوچستان پولیس فورس اور بلوچستان لیویز فورس کی تنخواہوں میں اضافے، رخشان ڈویژن میں یونیورسٹی کے قیام،سابق قبائلی اضلاع میں ٹیکسز کے خاتمے کی بابت ضروری اقدامات اٹھانے کی قرار دادیں منظور کرلی گئیں، اسلام آباد میں طلباء پر تشدد کا توجہ دلاؤنوٹس نمٹا دیا گیا،جمعرات کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے اپنا توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے صوبائی وزیر محکمہ داخلہ و قبائلی امور کی توجہ مبذول کرائی کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد پریس کلب کے باہر اسلام آباد پولیس کی جانب سے بلوچستان کے طالبعلموں کے احتجاجی مظاہرے پر بہیمانہ تشدد، لاٹھی چارج، اور نہتے طالب علموں کو زخمی کرنے کی بابت حکومت بلوچستان نے وفاقی حکومت رابطہ اور اس سلسلے میں جو اقدامات اٹھائے ہیں ان کی تفصیل فراہم کی جائے۔ توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے ثناء بلوچ نے کہا کہ صوبائی حکومت فوری طو رپر وفاقی حکومت سے اسلام آباد پولیس کے اس اقدام سے متعلق بات کرے اور اس پر احتجاج کرے افسوس ہے کہ بلوچستان میں تو لوگوں کو دوسرے درجے کا انسان سمجھا جاتا رہا ہے مگر اب جب ہمارے لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر بڑی مشکل سے اپنے بچوں کو حصول علم کے لئے اسلام آباد اور لاہور بھیجتے ہیں تو ان کے ساتھ وہاں جو سلوک کیا جاتا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ لاہور میں ایک بم دھماکے کے بعد بلوچ اورپشتون طلباء کو جس طرح پکڑ کر ان سے جو رویہ رکھا گیا وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ ہمارے طلبہ اسلام آباد میں اپنے مطالبات کے لئے احتجاج کررہے تھے تو ان پر انتہائی بے رحمانہ تشدد کیاگیا بتایا جائے کہ ہمارے طلبہ اگر پر امن احتجاج کے لئے پریس کلب بھی نہ جائیں تو پھر وہ کہاں جا کر احتجاج کریں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں ہمارے طلباء کو تحفظ دیا جاتا مگر ان کے ساتھ اس کے برعکس رویہ اختیار کیاگیا انہوں نے صوبائی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کو احتجاجی مراسلہ لکھے جس میں واقعے کی تحقیقات طلباء پر تشدد کی مذمت اور ازالے کا مطالبہ کیا جائے۔بعدازاں توجہ دلاؤ نوٹس نمٹادیا گیاصوبائی وزیر میر نصیب اللہ مری نے وزیر برائے محکمہ مذہبی امور کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 144کے تحت آئینی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئینہ مجریہ1973ء کے آرٹیکل144کے تحت اختیار دیتا ہے کہ وہ صوبائی اور ضلعی علماء و مشائخ کونسل کو تشکیل دینے سے متعلق ایسی قانون سازی کرے جو کہ پورے پاکستان میں نافذ العمل ہو۔قرار داد کو ایوان نے متفقہ طو رپر منظور کرلیا۔ وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو کے رخصت پر ہونے کی بناء پر ان کی قرار داد پیش نہیں ہوسکی جبکہ اپوزیشن لیڈر ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے ایوان میں اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ 7فروری کو وزیراعظم نے دورہ نوشکی کے موقع پر ایف سی اور رینجرز کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ بلوچستان پولیس فورس اور بلوچستان لیویز فورس کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیاحالانکہ پولیس فورس اور لیویز فورس کے جوان بھی عرصہ سے ملک کی دفاع اور تحفظ کی خاطر اپنی جانوں کی قربانیاں د ے رہے ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم ان کی تنخواہ بھی بڑھانے کا اعلان کرتے اور صوبہ کو اضافی تنخواہ کی رقم مرکز سے بھجواتے۔ صوبائی حکومت سے سفارش کی جاتی ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ بلوچستان پولیس اور بلوچستان لیویز فورس کی تنخواہوں میں بھی پندرہ فیصد اضافے کے فوری اعلان اور مطلوبہ فنڈز صوبہ کو فراہم کرنے کو یقینی بنائے تاکہ پولیس اور لیویز فورس میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے کہا کہ بلوچستان میں پولیس اور لیویز امن وامان کی بحالی کی ذمہ دار فورسز ہیں دونوں فورسز صوبے کے کونے کونے میں امن وامان کے قیام کے لئے تگ و دو کررہی ہیں اسی طرح ایف سی اور دیگر فورسزبھی ہمارے ملک کی سرحدوں کی محافظ فورسز ہیں وزیراعظم نے سات فروری کو اپنے دورہ نوشکی کے موقع پر ایف سی اور رینجرز کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ کیا جس پر خوشی ہوئی مگر وہیں انہوں نے صوبے میں قربانیاں دینے والے پولیس اور لیویز اہلکاروں کو نظر انداز کیا دونوں فورسز کی قربانیاں ہیں انہوں نے زور دیا کہ پولیس اور لیویز اہلکاروں کی تنخواہوں میں بھی اسی طرز پر اضافے کو یقینی بنایاجا ئے۔ پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ لیویز اور پولیس دونوں فورسز مقامی لوگوں پر مشتمل ہیں جن کا صوبے میں امن وامان کے قیام میں اہم کردار ہے بلوچستان کے مقابلے میں دوسرے صوبوں میں پولیس کی تنخواہیں کئی زیادہ ہیں حالانکہ صوبے کے مخدوش حالات میں امن وامان کے لئے پولیس او رلیویز اہلکاروں نے جانوں کے نذرانے دیئے ہیں وزیراعظم نے ایف سی اور رینجرز کی تنخواہوں میں تو اضافے کا اعلان کیا مگر پولیس اور لیویز کو نظر انداز کیا انہوں نے بھی زور دیا کہ پولیس اور لیویز کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ دیگر مراعات دی جائیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ امن وامان کے حوالے سے مشکل حالات میں پولیس اور لیویز کے اہلکاراپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر عوام کا تحفظ کررہے ہیں انہوں نے تجویز دی کہ آئین کے تحت بلوچستان کانسٹیبلری کے لئے وفاق سے اربوں روپے حاصل کئے جاسکتے ہیں اس سلسلے میں وفاق سے بات کی جائے اس موقع پر انہوں نے بلوچستان اور پنجاب میں پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں کا موازنہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دونوں صوبوں کی تنخواہوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے حالانکہ پنجاب میں حالات بہتر اور مراعات و سہولیات بھی زیادہ ہیں۔ صوبائی وزیر خزانہ نور محمد دمڑ نے قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یقینا پولیس اور لیویز کی دوسری سیکورٹی فورسز کی طرح قربانیاں ہیں ایف سی، پولیس، لیویز سمیت تمام فورسز کی قربانیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ہمارے سیکورٹی فورسز کے جوانوں نے پنجگور اور نوشکی میں جو قربانیاں دیں ان پر ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں فورسز کی قربانیوں کی بدولت ہی آج ہم اور ہمارا ملک محفوظ ہے یہ انصاف کا بھی تقاضہ ہے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر خدمات سرانجام دینے والوں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے وزیراعظم نے وفاقی فورسز کی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کیا پولیس اور لیویز کی تنخواہوں میں اضافہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے وزیراعلیٰ کی مشاورت سے آج ہی سے پولیس اور لیویز کی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق پیشرفت شروع کریں گے یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ بجٹ میں پولیس اور لیویز کی تنخواہوں میں اضافہ کردیا جائے گابعدازاں ایوان نے قرا ر داد متفقہ طو رپر منظور کرلی۔اجلاس میں بی این پی کے رکن ثناء بلوچ نے ایوان میں رخشان ڈویژن میں یونیورسٹی کے قیام سے متعلق اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ رخشان ڈویژن بلوچستان کے ایک لاکھ مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے اور اس وقت اس علاقے کے ہزاروں نوجوانوں اعلیٰ و فنی تعلیم سے محروم ہیں خاران جو رخشان ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر ہے اور قدیم تاریخی حیثیت پر مشتمل خطہ ہے۔ لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ بلوچستان بالخصوص رخشان ڈویژن میں تعلیم کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے رخشان یونیورسٹی کے قیام کو ممکن بنا کر بلوچستان کو تعلیم کے شعبے میں ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں تیل و گیس پر بات تو کی جاتی ہے لیکن اپنے لوگوں کو تعلیمیافتہ اور ہنر مند بنانے پر توجہ نہیں دی جارہی نوشکی واشک خاران ایک تاریخی علاقہ ہے رخشان یونیورسٹی کے لئے پانچ سو ایکڑ اراضی مختص کردی ہے اس پر یونیورسٹی بنائی جائے تو اس سے ہمارے نوجوانوں کو مختلف علم اور ہنر کے مواقع فراہم کئے جاسکتے ہیں۔صوبائی وزیر خزانہ نور محمد دمڑ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس قرار ادد کو پورے ایوان کے متفقہ قرار داد کے طو رپر لا کر زیارت، ہرنائی، دکی، قلعہ سیف اللہ اور دیگر علاقوں میں بھی جہاں جامعات نہیں ہیں ان کو بھی اس قرار داد کا حصہ بنایا جائے۔میر زابد علی ریکی نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ میراتعلق بھی رخشان ڈویژن سے ہے میرا نام بھی قرار داد میں شامل کیا جائے۔ بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے سابق قبائلی اضلاع پندرہ سال کے لئے مختلف ٹیکسوں سے Exemptقرار دیئے گئے تھے مگر اب Exemptشدہ ٹیکسز دوبارہ لئے جارہے ہیں جس سے سابق قبائلی اضلاع کے عوام سخت اضطراب میں مبتلا ہیں لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ Exemptشدہ ٹیکسز وعدے کے مطابق2032ء تک ختم کرنے اور ساتھ ہی وفاقی حکومت سے رجوع کیا جائے کہ وہ بھی سابق قبائلی اضلاع میں ٹیکسز کے خاتمے کی بابت ضروری اقدامات اٹھانے کو یقینی بنائے تاکہ سابق قبائلی اضلاع کے عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ قبائلی علاقوں کو زبردستی خیبرپختونخوا میں شامل کیاگیا ہم نے اسے اس وقت مسترد کردیا تھا 31مئی2018ء کوقبائلی علاقوں کو صوبہ پختونخواء میں شامل کردیا گیا اب قبائلی علاقوں سے ٹیکسز وصول کئے جارہے ہیں ان میں ایکسائز، پراپرٹی ٹیکس اور دیگر ٹیکسز تو زبردستی وصول کئے جارہے ہیں مگر کوئی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں اس لئے اس قرار داد کو متفقہ طو رپر منظو رکیا جائے۔ جے یوآئی کے مولوی نور اللہ نے کہا کہ میں قرار داد کی حمایت کرتا ہوں اور اس پر احتجاج بھی کرتا ہوں کیونکہ جن اضلاع سے پراپرٹی ایکسائز اور دیگر ٹیکسز وصول کئے جارہے ہیں وہاں حکومت نے کوئی سہولت نہیں دی۔ مولوی نوراللہ نے کہا کہ 2019ء میں تمام اضلاع میں لیویز کی اسامیاں آئیں قلعہ سیف اللہ کے180اسامیوں پر بھی ٹیسٹ و انٹرویوز ہوگئے باقی اضلاع کے تقررنامے تو آگئے مگر قلعہ سیف اللہ کے 180نوجوانوں کے تقرر نامے تاحال نہیں دیئے فوری طور پر ان اسامیوں کو پر کیا جائے تاکہ امیدواروں اور علاقے کے دیگر عوام میں جو بے چینی پائی جاتی ہے وہ دور ہو۔ بعدازاں ایوان نے قرار داد منظور کرلی۔