بلوچستان ہائیکورٹ نے پیکاآرڈینس کوکالعدم قراردینے کے حوالے سے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی آئینی درخواست کو قابل سماعت قراردیدیا

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان ہائیکورٹ نے پیکاآرڈینس کوکالعدم قراردینے کے حوالے سے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی آئینی درخواست کو قابل سماعت قراردیدیا، چیف جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بنچ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کرکے دو ہفتوں کے دوران جواب داخل کرانے کا حکم دیدیا،بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس روزی خان بڑیچ نے بی یو جے اور بلوچستان بار کونسل کی آئینی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کی جانب سے بلوچستان بار کونسل کے بین الصوبائی چیئرمین راحب بلیدی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پریونینشن آف الیکٹرانک ایکٹ 2016 میں صدارتی آرڈیننس کے تحت ترمیم کی گئی، جمہوری اداروں کے ہوتے ہوئے آرڈیننس غیر آئینی و غیر قانونی ہے اس کو کالعدم قرار دیا جائے، عدالت عالیہ نے دلائل سننے کے بعد آئینی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا اور اٹارنی جنرل کو دو ہفتوں کے اندر جواب جمع کرانے کا بھی حکم دیا گیا،سپریم کورٹ بار کے سابق صدر امان کنرانی بھی عدالت میں پیش ہوئے اور پیکا ترمیمی آرڈیننس کیخلاف آئینی پٹیشن کی حمایت کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر اپنی مکمل معاونت کی پیشکش کی، جس کے بعد سماعت ملتوی کردی گئی، اس موقع پر پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار،بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید،بی یو جے کے جنرل سیکرٹری منظور احمد، جبار بلوچ اور گلزار شاہ سمیت دیگر عہدیدار اور صحافی بھی موجود تھے،سماعت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے راحب بلیدی ایڈووکیٹ نے کہا کہ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس اور بلوچستان بار کونسل نے پیکا صدارتی آرڈیننس کو چیلنج کررکھا ہے، بلوچستان ہائیکورٹ کی جانب سے درخواست کو قابل سماعت قرار دیا جانا خوش آئند ہے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پیکا ایکٹ میں ظالمانہ ترمیم کرنا حکومت کی بدنیتی ہے،ہم نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا جائے، بی یو جے کے صدر عرفان سعید نے کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کو منطقی انجام تک پہنچا کے دم لیں گے،حکومت کالے قانون کے ذریعے صحافیوں کا گلہ گھوٹنا چاہتی ہے جو ہم نہیں ہونے دیں گے، انہوں نے کہا کہ اس جابرانہ قانون کے خلاف وکلا، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں بھی ہمارے ساتھ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے