پیکا ایک کالا قانون ہے، کیوں نا سیکشن 20 کالعدم قرار دیدیں، جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا آرڈیننس، ایف آئی اے کا اختیار سے تجاوز کے خلاف کیسز کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس 14 ہزار شکایات ہیں لیکن صرف حکومت مخالف آوازوں کو ٹارگٹ کیا گیا، قوانین کو آرڈی نینس کے ذریعے ڈریکونین بنانا تشویشناک ہے، اگر ایگزیکٹو کو اپنی پرائیویٹ ساکھ کا اتنا خیال ہے تو اس میں سے پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ پیکا ایک کالا قانون ہے، اختلاف کرنے والے حدف، کیوں نا سیکشن 20 کالعدم قرار دیدیں، سیاسی جماعتوں کی درخواستوں پر کارروائی نہیں کریں گے، اپوزیشن کی تو سینیٹ میں اکثریت ہے، اس کو مسترد کر سکتے ہیں۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ان کے خیال سے پیکا سیکشن غیر آئینی نہیں، قانون کا غلط استعمال کو دیکھنا ہے کہ اس کے کچھ سیف گارڈز ہونے چاہئیں، اگر کوئی کسی پردہ نشین خاتون کو کہے کہ وہ جادو ٹونہ کرتی ہیں یا چھت پر گوشت پڑا ہے، کیا یہ آزادی اظہار رائے ہے ؟ کسی کے بیڈ روم کی وڈیو بنا کر وائرل کرنا یا جعلی وڈیو اپلوڈ کرنا کیا یہ ٹھیک ہے؟ آرڈی نینس کے اثرات اور نتائج کو کابینہ ارکان سے ڈسکس کروں گا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہتے ہیں ایف آئی اے جا کر گرفتار کرے گا اور ٹرائل کے اختتام تک وہ قید رہے گا، نیب کے قانون سے بھی زیادہ بدتر کر دیا ہے، جتنا نقصان نیب اور اس کے قانون نے پہنچایا ہے، اس وقت کچھ کہنا نہیں چاہتے، آپ یہ بات واضح کریں کہ کسی تقریر پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا، یہ بھی بتائیں کہ ایسی کیا جلدی تھی کہ آرڈی نینس لے کر آئے؟۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا آرڈیننس اور ایف آئی اے کے اختیار سے تجاوز کیس کی سماعت دس مارچ تک ملتوی کر دی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے