بلوچستان کی نیشنلزم کمزور ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے وسائل کو لوٹا جارہاہے،جان محمد بلیدی
تربت(ڈیلی گرین گوادر) نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جان محمد بلیدی نے کہاہے کہ بلوچی زبان وادب اور ثقافت کی ترقی وترویج کیلئے تمام مکاتب فکر کو متحدہوکر کوششیں کرنی ہوں گی، ساحل وسائل کے تحفظ کے ساتھ ساتھ زبان وثقافت ہم سب کی مشترکہ میراث ہیں جو ہماری قومی شناخت کی ضامن ہیں،نیشنل پارٹی کو اگر اقتدار میں آنے کاموقع ملاتو بلوچی زبان کو سرکاری زبان اور تعلیمی اداروں میں بلوچی کی تدریس یقینی بنائے گی،ان خیالات کااظہار انہوں نے نیشنل پارٹی کیچ اوربی ایس اوپجارکے زیراہتمام ڈاکٹرعبدالمالک ہاؤس تربت میں مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا،سیمینارمیں نامور ادیب ودانشوروں نے خطاب کیا جبکہ خواتین سمیت آل پارٹیزکیچ، انجمن تاجران تربت ودیگر مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والوں نے شرکت کی، مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمدبلیدی نے کہاکہ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں اور ادیب، دانشور اورشاعروں کی کمزوری کی وجہ سے بلوچی زبان کو وہ مقام حاصل نہ ہوسکا جو سندھ میں سندھی کو حاصل ہے، انہوں نے کہاکہ تاریخی طورپر تین مختلف ادوارمیں بلوچی زبان کی ترقی وترویج کیلئے اقدامات اٹھائے گئے جن میں پہلی کوشش خان قلات میر احمد یارخان، دوسری کوشش 1988ء میں بی این اے کے دورحکومت میں اورتیسری کوشش 2013ء میں ڈاکٹرمالک کے دور حکومت میں کی گئی، ڈاکٹرمالک بلوچ نے پرائمری سطح پر بلوچی کے کلاسوں کے اجراء کے ساتھ ساتھ بلوچ ادیب ودانشور اورشاعروں اور ادبی اداروں کے ساتھ ہرممکن تعاون کیا، نیشنل پارٹی کوجب بھی موقع ملے تو بلوچی کو پروموٹ کرنے کیلئے تمام تروسائل بروئے کارلائے گی کیونکہ نیشنل پارٹی کی بلوچ، بلوچستان، بلوچ ادیب، شاعروں سے نظریاتی وفکری وابستگی ہے، انہوں نے کہاکہ آج کے دن کے تاریخی پس منظرکو دیکھاجائے تو اس کے پیچھے حکمرانوں کی غلط سیاسی پالیسیاں نظرآئیں گی، انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی نیشنلزم کمزور ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے وسائل کو لوٹا جارہاہے ریکوڈک کو بیچا گیا، سیندک کے لیز میں 15سال کی توسیع کردی گئی مگر نیشنل پارٹی کے سواسب خاموش ہیں، سیاسی ورکروں کی قومی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے قومی معاملات کوسنجیدہ لیں، قومی شعور اجاگرکرکے اپنی زبان، ثقافت اور قومی مفادات کا تحفظ کریں،انہوں نے کہاکہ نیشنل پارٹی تمام سیاسی جماعتوں اور لیڈرشپ کا احترام کرتی ہے بلوچ کو مشکل سے نکالنے اور زبان وکلچرکی ترقی کیلئے سب کویکجاہوکر جدوجہد کرنی چاہیے، نیشنل پارٹی بلوچستان وحدت کے صدر سابق صوبائی وزیرمیر رحمت صالح بلوچ نے کہاکہ آج مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے ہمیں یہ عزم کرناہوگا کہ ہم نہ صرف بلوچی بولیں بلکہ بلوچی لکھیں اوربلوچی پڑھیں نیشنل پارٹی کے الیکشن منشورمیں یہ نکتہ شامل ہے کہ بلوچستان کی زبانوں کو سرکاری زبان قرار دے کر انہیں اسکولوں میں رائج کیاجائے گا، انہوں نے کہاکہ بلوچ 9ہزار سالہ پرانی تاریخ کے وارث ہیں،ہم مہرگڑھ جیسی قدیم ترین تہذیب کے امین ہیں مگر ہمارے نوجوان اپنی تہذیب سے آشنا نہیں ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ تربت یونیورسٹی مین کیمپس، پنجگورسب کیمپس اورگوادرسب کیمپس میں آرکائیالوجی کی کلاسیں شروع کی جائیں، جس سے نوجوانوں میں اپنی تہذیب اورتاریخ کے مطالعہ اورتحقیق کا شوق پروان چڑھے گا،کیچ میوزیم اینڈ کلچرسینٹر کومکمل فعال کیاجائے، سیمینار سے نامور ادیب ودانشور پروفیسرغنی پروازنے کہاکہ 17نومبر1999ء کو اقوام متحدہ کی جانب سے مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کافیصلہ کیاگیا اور21فروری2000ء سے یہ عالمی دن منایاجارہاہے اور21فروری کے دن کا چناؤ بنگالی قوم کی اپنی مادری زبان کے تحفظ کیلئے دی جانے والی قربانی کی وجہ سے کیاگیا، انہوں نے مطالبہ کیاکہ بلوچستان میں بلوچی کو سرکاری زبان کا درجہ دیاجائے اور بلوچی کو پرائمری ذریعہ تعلیم بنایاجائے،سیمینار سے پروفیسر طاہرحکیم، پروفیسر غفور شاد، پروفیسر رؤف راز، پروفیسرباقرعلی شاکر، ارشادعالم،نیشنل پارٹی مکران ریجن کے سیکرٹری واجہ ابوالحسن، ضلعی صدرمشکور انور، آل پارٹیزکیچ کے کنوینر خان محمدجان، بی ایس اوپجارکے مرکزی سنیئروائس چیئرمین بوہیر صالح ایڈووکیٹ، نثار احمد بزنجو، احسان درازئی نے بھی خطاب کیا جبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض فضل کریم نے سرانجام دئیے، سیمینار میں پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نواب شمبے زئی، بی این پی عوامی کے رہنما میرخلیل تگرانی، معروف شخصیت عبداللہ بلوچ، کیچ بارکے رہنما مجید دشتی ایڈووکیٹ، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے رہنما یلان زامرانی سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے شریک تھے۔