بلوچستان میں دوران زچگی اموات کی شرح میں اضافہ 40 فیصد زائد ہونے کاانکشاف
کوئٹہ (ڈیلی گرین گوادر) بلوچستان میں دوران زچگی اموات کی شرح دیگر صوبوں سے 40فیصد زائد ہونے کاانکشاف ہواہے،دوردراز علاقوں کے ڈاکٹرز کو تنخواہوں کے علاوہ 90ہزار روپے الاؤنس ملنے کے باوجودرہائش، سکیورٹی اور بچوں کے لیے اچھے سکول سمیت دوسری بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی اس کی وجہ سے ڈاکٹرز دوردراز علاقوں میں کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔پاکستان میٹرنل مورٹیلٹی سروے 2019 کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں ایک لاکھ زچگیوں کے دوران 298 مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔قومی سطح پر یہ تناسب ایک لاکھ پیدائشوں پر 187 اموات کا ہے یعنی بلوچستان میں اموات کی یہ شرح باقی ملک سے تقریبا 40 فیصد زائد ہے۔بلوچستان حکومت نے آئندہ چار سالوں تک صوبے میں زچگی کے دوران اموت کی شرح 200 تک لانے کا ہدف رکھا ہے۔دوسری جانب ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز بلوچستان ڈاکٹر نور قاضی نے گرین گوادر نیوز کہ نماہندہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں طبی عملے بالخصوص گائنا کولوجسٹ، خواتین ڈاکٹر، اینستھیزسٹ اور تربیت یافتہ دائیوں کی شدید کمی ہے۔ اینستھیزسٹ تو کوئٹہ کے بڑے ہسپتالوں میں بھی پورے نہیں۔انہوں نے بتایا کہ صوبے میں صرف 1700 کمیونٹی مڈ وائف (تربیت یافتہ دائیاں)اور 1500 لیڈی ہیلتھ وزیٹرز ہیں۔بجٹ دستاویزات کے مطابق بلوچستان میں محکمہ صحت کے ملازمین کی تعداد 29 ہزار سے زائد ہیں تاہم ان میں گائنا کولوجسٹ کی تعداد تقریبا 50 اور فی میل میڈیکل آفیسرز (لیڈی ڈاکٹر)700 کے لگ بھگ ہیں۔ان میں سے بھی نصف سے زائد لیڈی ڈاکٹرز کوئٹہ میں تعینات ہیں جبکہ باقی اضلاع میں بڑی تعداد میں یہ آسامیاں خالی بھی ہیں۔ڈاکٹر قاضی کے مطابق صوبے کے دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی کمی پورا کرنے کے لیے کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کی جا رہی ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں ڈاکٹروں کو تنخواہوں کے علاوہ 90 ہزار روپے تک کے اضافی الاؤنس دیے جاتے ہیں۔اس کے باوجود ڈاکٹر خاص کر خواتین ماہرین دور دراز علاقوں میں کام کرنے کو کیوں تیار نہیں؟ اس سوال کے جواب میں سینئیر گائنا کالوجسٹ اور سول ہسپتال کوئٹہ کے شعبہ گائنی کالوجی کی سربراہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بتایا کہ رہائش، سکیورٹی اور بچوں کے لیے اچھے سکول سمیت دوسری بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی اس کی وجوہات ہیں۔ڈی جی ہیلتھ کے مطابق بلوچستان کے 34 اضلاع میں مجموعی طور پر 1600 سے زائد ہسپتال اور صحت کے مراکز ہیں جن میں نو ٹیچنگ ہسپتال، دو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، 28 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال، پانچ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال،108 رورل ہیلتھ سینٹرز، 784 بنیادی مراکز صحت جبکہ 91 زچہ و بچہ مراکز شامل ہیں۔بلوچستان میں صحت کے شعبے پر سالانہ تقریبا 50 ارب روپے سے زائد خرچ ہونے کے باجود پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرنگ میئرمنٹ سروے 2019-20 میں صوبے کے 28 میں 17 اضلاع میں صحت کے اشاریوں کو بد ترین قرار دیا گیا ہے۔