سندھ اسمبلی کی جانب سے طلباء یونینز بل کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہیں،رحمت صالح بلوچ

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر سابق وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے سندھ اسمبلی کی جانب سے طلباء یونینز بل کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہوئے بلوچستان،پنجاب اور خیبر پختونخوا سے بھی طلباء یونینز پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیاانہوں نے کہا کہ 38سال قبل ضیاء الحق نے طلباء تنظیموں پر پابندی لگائی جس سے کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان پہنچا، انہوں نے اس سیاسی نرسری کو ختم کیا جس سے مستقبل کی کمیٹیڈ سیاسی لیڈر شپ پیدا ہوتی تھی طلبہ یونینز پر پابندیوں نے طلبہ،جموریت اور سیاست کو بہت نقصان دیا ہے،نوجوان نسل اور سیاسی لیڈر شپ کے درمیان خلاء پیدا ہوا، انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں گرتے ہوئے معیارِ تعلیم اور عدم برادشت کی بڑھتی ہوئی فضا کا ذمہ دار طلبہ یونینز پر پابندی کو سمجھتے ہیں، طلباء انتہا پسندی کی طرف چلے گئے اور معاشرہ میں عدم برداشت پیدا ہوا جن مشکلات کا سامنا آج طلبہ کر رہے ہیں ان کی آواز کو منظم طریقے سے آگے لے کر جانے والا کوئی نہیں ہے،یونین سازی طلبا کا آئینی حق ہے،انہوں نے کہا کہ یونینز کی عدم موجودگی کی وجہ سے طلبہ معاشرتی سرگرمیوں سے کٹ جاتے ہیں، طلبہ یونینز نہیں جس کے نتیجے میں صحت مند مباحثے اور مکالمے کا کلچر بھی ختم ہو گیا ہے،صحت مند سرگرمیوں کے فقدان کی وجہ سے طلبہ میں نشے جیسے رجحانات بڑھ رہے ہیں یہی طلبہ کل کو ملک کی سیاست میں کوئی کردار ادا کر سکیں، اس کے لئے طلبہ یونینز کی بحالی ضروری ہے آج کے طلبہ سیاسی تاریخ اور جمہوری جدوجہد سے بے خبر ہیں طلبہ نہ پاکستان کے سیاسی پس منظر سے باخبر ہیں، نہ سیاسی تاریخ سے واقف ہیں، نہ جمہوریت کے لئے اس سیاسی جدوجہد سے آگاہ ہیں جس میں سیاسی جماعتوں نے، قائدین نے، دانشوروں نے، اساتذہ نے، صحافیوں نے، عوام نے قربانیاں دی ہیں، اب تو سیاست کے لفظ ہی کو برا بنادیا گیا ہے، سیاسی عمل ہی کو برا سمجھا جاتا ہے،ہمارے وزیراعظم کبھی چین کا ماڈل پاکستان لانے کی بات کرتے ہیں، کبھی سعودی عرب کا ماڈل اپنانے کا کہتے ہیں، کبھی پانچ ہزار لوگوں کو پھانسی دینے کی خواہش کرتے ہیں یہ سب غیر جمہوری سوچ سے پیدا ہونے والے خیالات ہیں، یہ غیر جمہوری رویے شاخسانہ ہیں اس عمل کا، جس کا ایک حصہ طلبہ یونین پر اس کے انتخابات پر پابندی لگانا تھا،طلبہ تنظیموں پر پابندی کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک تو آمریت کو موقع ملتا ہے دوسرا یہ کہ موروثی سیاست کو فائدہ ہوتا ہے، طلبہ سیاست کے ذریعے تربیت یافتہ رہنماؤں کی قومی سیاست میں آمد کا راستہ رک جاتا ہے،اگر ہم پاکستان میں صحیح جمہوریت کو دیکھنا چاہتے ہیں تو طلبہ تنظیموں کی بحالی بہت ضروری ہے،جب تک ہم اپنی نئی نسل پر بھروسہ نہیں کریں گے اور انھیں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع نہیں دیں گے سیاسی بد نظمی سے نہیں نکل سکیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے