ریاست خود اغواء میں ملوث ہوتو تحقیقات کون کریگا؟،عدالت

اسلام آباد(ڈیلی گرین گوادر)اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو جبری گمشدگیوں پر مؤثر اقدامات اٹھانے کا حکم دے دیا، ایک موقع پر عدالت کا کہنا تھا کہ تاثر جب یہ ہو کہ لاپتا افراد کو ریاست اغوا کر رہی ہے تو کون ذمہ دار ہے؟ ریاست کو واضح پیغام دینا ہوگا جبری گمشدگی برداشت نہیں ہوگی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں منگل 18 جنوری کو جبری گمشدگیوں سے متعلق دائر کیسز کی سماعت ہوئی۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اظہر من اللہ نے کیسز کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگیوں کے کیس میں مشکل ہی یہ ہے کہ ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا؟ ایسے واقعات سے نان اسٹیٹ ایکٹرز کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ تمام کوششوں کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا، مدثر نارو کی فیملی کی وزیراعظم سے ملاقات بھی کرائی گئی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران کافی تعداد میں لوگ غائب ہوئے جو جبری گمشدگی میں نہیں آتے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت لوگوں کو اٹھایا گیا، اس پر کیا کہیں گے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ موجودہ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں، یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ وفاقی حکومت نے پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کسی بھی حکومت کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو زبردستی اٹھایا جائے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اب حکومت کیا کر رہی ہے؟ آئین اور قانون تو موجود ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے چیف ایگزیکٹوز کیخلاف ایکشن کی بات کی تھی اس کا موجودہ وزیراعظم پر اطلاق نہیں ہوتا، لوگوں کو اٹھانا دو سابق چیف ایگزیکٹو ز کی پالیسی نہیں تھی ، مشرف کا دفاع نہیں کروں گا۔چیف جسٹس نے کہا دو ہزار سولہ میں تو منتخب وزیراعظم تھے پھر اسلام آباد سے دو بچے کس نےاٹھائے ؟ تاثرجب یہ ہو کہ ریاست اغوا کر رہی ہے تو عدالت ریاست کےساتھ کیا کرے ؟ اٹارنی جنرل اس سوال پر خاموش ہوگئے۔

عدالت نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ایک لاؤڈ پیغام جانا چائیے اب جبری گمشدگیاں برداشت نہیں ہوں گی، ریاست کی جانب سے بھی واضح پیغام چاہتے ہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اٹارنی جنرل صاحب ! حل یہ ہے کہ یہ تاثر ختم کریں کہ لاپتا افراد کے حوالے سے کوئی کچھ نہیں کر رہا ، ذمہ داروں کیخلاف ایکشن لیں، اگر ایسا نہیں کر سکتے تو عدالت آکر بیان دیں سوری ہم نہیں کرسکتے۔ تین ہفتوں میں مطمئن کریں کہ کیا اقدامات کئے گئے۔ عدالت نے چودہ فروری کو حتمی دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے