ریکوڈک کو فروخت کرنے کے خلاف نواب محمد اسلم رئیسانی نے صوبے میں مزاحمت کا آغاز کیا، نوابزادہ لشکری رئیسانی

کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)سینئر سیاستدان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ ریکوڈک کو فروخت کرنے کے خلاف نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے صوبے میں مزاحمت کا آغاز کیا۔ صوبے کے حقوق کی آواز اٹھانے پر ہمارا خاندان آج بھی زیر عتاب ہے، بلوچستان کے وسائل کے دفاع کیلئے ان تکالیف اور نقصانات کو ہم انتہائی چھوٹی سی قربانی سمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں روز ایک نئی تاریخ لکھی جارہی ہے، آج نہیں تو کل لوگ ضرور پوچھیں گے کہ ریکوڈک پر ان کیمرہ اجلاس بلانے کی ضرورت کیوں پڑی، قائد اعظم اور میر احمد یار خان کے مابین ہونے والے معاہدہ پر عملدرآمد درکنا ر اس پر غور بھی نہیں کیا گیا۔ جو ڈرامہ گوادر میں سی پیک کے نام پر رچایا گیا اب وہی کچھ ریکوڈک کے حوالے سے ہورہا ہے، ملک کی ایک مخصوص قوت بلوچستان کو وفاقی اکائی تسلیم نہیں کرتی۔ ہمارے بھائیوں کے خون کو بنیاد بناکر وفاق کی سرپرستی میں بلوچستان پر مسلط ہونے والوں کو بھی یہ حساب دینا ہوگا۔ یہ بات انہوں نے گزشتہ روز ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان کے معاملات کو خاص نظر سے دیکھنے والے سنجیدہ لوگوں کو نہ صرف ریکوڈک کے معاملے پر تشویش لاحق ہے بلکہ وہ اس معاملے کو ایک خاص نظر سے دیکھ ر ہے ہیں،بلوچستان کی اہم ترین معدنی دولت ریکوڈک کو پہلی مرتبہ 1990ء میں بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا گیااور پرویز مشرف کے دور حکومت میں آئین کی خلاف ورزی کرکے بلوچستان کے لوگوں سے پوچھے بغیر ریکوڈک کو ایک بین الاقوامی کمپنی کو فروخت کیا گیا، 2008ء میں نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی سربراہی میں بننے والی مخلوط صوبائی حکومت نے بلوچستان اور یہاں کے لوگوں کے مفادات کو دیکھتے ہوئے ریکوڈک کو فروخت کرنے کیخلاف مذاحمت کا آغاز کیا اس دوران وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے نواب محمد اسلم خان رئیسانی پر دباؤ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے صوبے کے مفادات کو مقدم سمجھتے ہوئے بحیثیت وزیراعلیٰ بلوچستان ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کیا، نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے عدالت جاکرموقف اختیار کیا کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کیلئے صوبے میں جدید ٹیکنالوجی لائی جائیگی،صوبائی حکومت نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے کو ملنے والے پیسوں سے آٹھ سے دس ارب روپے ریسرچ اور جدید ٹیکنالوجی کیلئے مختص کئے تاکہ صوبے کے وسائل صوبے کے لوگوں پر خرچ ہوں۔انہوں نے کہاکہ صوبے کے حقوق کی آواز دنیا تک پہنچانے، وسائل کی لوٹ مار قتل وغات گیری کے واقعات کیخلاف میں نے سینیٹ کی رکنیت سے احتجاجاً استعفیٰ دیا۔ جس کے بدلے ہمارے خاندان اور علاقے کے لوگوں کوبراہ راست نشانہ بنایا گیا اور آج تک ہم تکالیف اور نقصانات اٹھارہے ہیں تاہم بلوچستان کے وسائل کے دفاع کیلئے ان تکالیف اور نقصانات کو ہم انتہائی چھوٹی سی قربانی سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ریکوڈک ہو یا بلوچستان کے دیگر معدنی وسائل انہیں کبھی بلوچستان کے مفاد میں استعمال نہیں کیا گیا تاکہ یہاں کے لوگ ترقی کرکے ٹیکنالوجی انفراسٹریکچر میں آگے بڑھیں،ہمیشہ وفاق میں اسٹیبلشمنٹ نے معدنی وسائل کی لوٹ مار کرکے بلوچستان کی پسماندگی کا ذمہ دار یہاں کے سرداروں، سیاسی جماعتوں،قبائلی نظام کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں روزانہ ایک نئی تاریخ لکھی جارہی ہے، ریکوڈک پر ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس میں صوبے کے ہم قدرتی وسائل اور آئندہ نسلوں کو سودا کرنے والے ہر شخص سے آج نہیں تو کل بلوچستان کے لوگ ضرور پوچھیں گے کہ آیا کون سی ضرورت پیش آئی کہ ان کیمرہ اجلاس بلایا گیا۔ ان کیمرہ اجلاس میں وہ کون سی راز کی باتیں ہوئیں؟ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور باقی ملک کے وسائل اور بین الاقوامی قرضوں کو اپنی شاہ خرچیوں پر خرچ کرنے والوں کی نظر یں اب ریکوڈک اور بلوچستان کے دیگر معدنی وسائل پر ہیں وفاق اس کے نمائندے اور بلوچستان میں بیٹھے ان کے ہمددوں کو پہلے بلوچستان کے لوگوں کو حساب دینا ہوگا کہ سات دہائیوں میں وفاق نے مالیاتی اداروں سے کتنا قرضہ لیا ہے اور ان قرضوں کا کتنا فیصد حصہ بلوچستان پر خرچ ہوا،ہمارے بھائیوں کے خون کو بنیاد بناکر وفاق کی سرپرستی میں بلوچستان پر مسلط ہونے والوں کو بھی یہ حساب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایک بات سنتے آرہے ہیں کہ وفاقی حکومت بلوچستان کی ترقی کیلئے اربوں ڈالر دے رہی ہے اصل میں یہ وہی ڈرامہ ہے جو گوادر میں سی پیک کے نام پر رچایا گیا تھا، آج گوادر کے لوگ اپنے روزگار کے تحفظ پینے کے پانی کیلئے احتجاج کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 1940ء کی قرار داد پرعملدرآمد تو اپنی جگہ اس پر کبھی غور بھی نہیں کیا گیا ہے، خان آف قلات میر احمد یارخان اور قائد اعظم محمد علی جناح کے درمیان ہونے والے معاہدہ جس میں بلوچستان کے مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی اور بلوچستان کو وفاقی اکائی کی حیثیت دی گئی المیہ ہے کہ اس معاہدہ پر عملدرآمد نہ ہونے پرآج تک بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے کبھی بات نہیں کی کیوں کہ کچھ لوگوں کیلئے ان کی ذاتی شخصیت اور معاملات زیادہ اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1973ء میں ملک کا آئین بنا جسے ضیاء الحق نے پامال کیا، اٹھارویں ترمیم پر آج تک عملدرآمد نہ ہونے کا مطلب ہے کہ ملک میں ایک خاص طاقت بلوچستان کو وفاقی قومی اکائی تسلیم نہیں کرتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے