ریکوڈک بلوچستان کا قومی سرمایہ ہے، ہماری آئندہ نسلوں کی بقاء معدنی وسائل میں ہے، نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی
کوئٹہ(ڈیلی گرین گوادر)سینئر سیاستدان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی نے صوبائی اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریکوڈک بلوچستان کا قومی سرمایہ ہے، ہماری آئندہ نسلوں کی بقاء معدنی وسائل میں ہے بند کمرے میں ریکوڈک اور بلوچستان سے متعلق ہونے والے فیصلوں کو قبول نہیں کریں گے۔ معدنی وسائل سمیت صوبے کے تمام فیصلے بلوچستان کے عوام، طالبعلم، دانشور اور حقیقی سیاسی کارکن کریں گے،سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی اور ہمارے خاندان نے ریکوڈک اور دیگر قومی ورثوں کے تحفظ کیلئے قربانیاں دیں بحرانوں کا سامنا کیا۔حکومت نے میڈیکل کالجز کے طلباء کے مسائل کو سنجیدگی سے نہ لیا تو تحریک کو صوبے کے تمام تعلیمی اداروں تک پھیلادیا جائیگا۔ یہ بات انہوں نے پیر کو مکران، جھالاوان، لورالائی میڈیکل کالجز کے متاثرہ طلبا کے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم احتجاجی کیمپ میں اظہار یکجہتی کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، اس موقع پر سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد و دیگر بھی ان کے ہمراہ تھے۔نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ مکران، جھالاوان، لورالائی میڈیکل کالجز کے طلباء گزشتہ 18 روز سے سراپا احتجاج ہیں مگر صوبائی حکومت نے اب تک طلباء سے باضابطہ مذاکرات کا آغاز تک نہیں کیا، حکومت کے رویہ سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ صوبائی حکومت خود مسائل کو پیچیدہ بناکر لوگوں کو احتجاج پر اکسارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیکل کالجز کے طلباء کے طلباء کو چار سال بعد دوبارہ انٹری ٹیسٹ دینے کیلئے کہا جارہا ہے حالانکہ ان طلباء نے پہلے ہی انٹری ٹیسٹ پاس کرکے چار سال تک تعلیم حاصل کی ہے طلباء کے چار سال ضائع کرنا پوری قوم کے چار سال ضائع کرنے کے مترادف عمل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اگر کوئی بھی بے قاعدگی ہوئی ہے تو اس کی سزا طلباء ان کے والدین اور بلوچستان کے لوگوں کو نہ دی جائے بلکہ یہ سزا انہیں دی جائے جنہوں نے یہ پالیسی بنائی۔ انہوں نے صوبائی حکومت اور متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ میڈیکل کالجز کے متاثرہ طلباء کو تعلیم جاری رکھنے دیں اور مزید سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ یہ بچے اپنی تعلیم مکمل کرکے سماج کی خدمت کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیکل کالجز کے طلباء کے مسائل کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو تحریک کو صوبے کے تمام تعلیمی اداروں تک پھیلایا جائیگا۔ ریکوڈک سے متعلق بلوچستان اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس سے متعلق انہوں نے کہا کہ ریکوڈک بلوچستان کا قومی ورثہ ہے ہماری آئندہ نسلوں کی بقاء ریکوڈک میں ہے، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی اور ہمارے خاندان نے ریکوڈک اور دیگر قومی ورثوں کے تحفظ کیلئے قربانیاں دیں، ریکوڈک سے متعلق بلوچستان اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس کو مسترد کرتے ہیں ملک کے حکمرانوں نے اپنی شاہ خرچیوں کیلئے ملک کو کنگال کردیا ہے اب ان کی نظریں بلوچستان کے وسائل پر ہیں ریکوڈک کو فروخت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ریکوڈک بلوچستان کے لوگوں کا قومی سرمایہ ہے اس سے متعلق اجلاس کو خفیہ رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اس سے یہ ثابت ہوا کہ ریکوڈک سے متعلق فیصلے پہلے ہی طے ہوچکے ہیں اور اس مقصد کیلئے بلوچستان میں ان ہاؤس تبدیلی لاکر جام کمال خان کو ہٹاکر نواب محمد اسلم خان رئیسانی کے سوا سب نے موجودہ وزیراعلیٰ کو منتخب کیا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس میں ریکوڈک سے متعلق جو بھی فیصلہ کیا جائیگا اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو 1954 میں سوئی گیس معاہدئے کا نکلا آج تک بلوچستان کے لوگ گیس کیلئے احتجاج کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سیندک کو چین کو فروخت کیا گیا اس کے نتیجے میں آج تک بلوچستان کے لوگوں کو ایک روپیہ کا بھی فائدہ نہیں پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سلیکٹڈ انتخاب اس لیے کرائے جاتے ہیں تاکہ بلوچستان کے حقوق کا دفاع اور صوبے کے عوام کو جوابدہ لوگوں کو پارلیمنٹ سے باہر رکھا جائے سلیکٹڈ لوگ آج ریکوڈک گوادر سمیت صوبے کی معدنیات سے متعلق خفیہ معاہدہ کررہے ہیں تاہم بلوچستان کی نوجوان اپنی آئندہ نسلوں کا دفاع کرتے ہوئے ریکوڈک کو فروخت کرنے کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے بلکہ اس کا فیصلہ بلوچستان کے لوگ یہاں کے طالبعلم، دانشور اور حقیقی سیاسی کارکن کریں گے۔