بلوچستان کے وسائل کوکوئی بھی بیچنے کی کوشش کریگا ہم ان کے سامنے دیوارکی طرح کھڑے ہونگے، ملک سکندر،ملک نصیر
کوئٹہ(ڈیلی گررین گوادر) بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اسلام آباد میں ریکوڈک پر خفیہ معاہدہ کرنے جارہی ہے جو کہ 18ویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے ریکوڈک اور سیندک کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرنا ہے اس پر بلوچستان اسمبلی کو اعتماد میں لیکر فیصلہ کیا جائے، اپوزیشن جماعتیں اسمبلی کے اندر اور باہر کسی بھی غیر آئینی و غیر قانونی فیصلے کے خلاف احتجاج کریں گی ضرورت پڑی تو معاہدے کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کریں گے، یہ بات بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرملک سکندر خان ایڈوکیٹ، بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی، میر اختر حسین لانگو، میر یونس عزیززہر ی نے پیر کو بلوچستا ن اسمبلی کے اپوزیشن چیمبر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈوکیٹ نے کہا کہ ریکو ڈک جو بلو چستان کا سر مایہ ہے اس کے با رے میں غیر آئینی اور غیر قانونی طر یقے سے عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈال کر اس کے وسا ئل سے بلو چستان کے عوام کو محروم کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے ریکو ڈک اور سیندک بلو چستان میں معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں انہی وسائل سے بلو چستان کی غریب عوام بلو چستان اپنے پاؤں پر کھڑ اہو گا اگر ان وسائل سے بلو چستان کی عوام کو محروم رکھا جائے گا تو یہ ظلم اور بر بیت ہو گی جس کی ہم کبھی اجا زت نہیں دیں گے انہوں نے کہا کہ ریکو ڈک کے حوالے سے بلو چستان کی عوام نے بلو چستان اسمبلی کی توسط سے قرار داد بھی پاس کی ہے اور سیندک کے حوالے سے اسمبلی کی کمیٹی بھی بنی ہے لیکن کمیٹی کی جانب سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا یا گیا جس سے یہ ثابت ہو کہ بلو چستان کی عوام کو انکے حقوق ملیں گے انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کر تے ہیں ریکو ڈک کے معاملے میں مر کزی سطح پر جو بھی پلانگ ہو رہی ہے اس پر ان کیمرہ بلو چستان اسمبلی میں بلو چستان کے عوام کو انکے منتخب نمائندوں کی ذریعہ بریفنگ دی جائے تاکہ پتہ چلے بلو چستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ تو نہیں ڈالا جا رہا انہوں نے کہا کہ دو سرا مطالبہ ہما را یہ ہے کہ ریکو ڈک کے بارے میں مرکزی سطح پر یا کسی بھی عالمی فورم پر بلو چستان کے عوام ہی اس کے مالک ہیں انکی رضا مندی کے بغیر کوئی معاہدہ یا کوئی گفتگو نہ قابل قبول ہے انہوں نے کہا کہ18ویں ترمیم کے بعد قدرتی وسائل بلو چستان کے عوام کی ملکیت کا مسئلہ ہیں جس سے بلو چستان کے عوام کی علا وہ کسی دوسرے کا کو ئی تعلق نہیں ہے اس حق کی ڈیکلیریشن کے لئے ہم ہر فورم پر آواز بلند کریں گے انہوں نے کہا کہ جام کمال خان کی حکومت کے خاتمے میں حکومتی اراکین کا ساتھ دیا اور جہاں انہیں مشکل درپیش ہوگی ہم پھر ساتھ دیں گے ہم اب بھی اپوزیشن میں ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حقوق کے لئے لڑیں گے اگر معاہدہ ہوتاہے ہم مذمت کریں گے۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بی این پی کے پارلیما نی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ ریکو ڈک بلو چستان کا ایک سر مایہ ہے موجود اور سابقہ وفا قی حکومتوں کی جانب سے کہا گیا کہ ہم ریکو ڈک کو بیچ کو پاکستان کے قرضے اتاریں گے ریکوڈک بلوچستان کا سرمایہ ہے بلو چستان کے عوام کو اعتمادمیں لئے بغیر ریکو ڈک کا کوئی بھی فیصلہ کر نا بلو چستان کے عوام اور سیا سی پارٹیاں اسے قبول نہیں کرے گے اس سے قبل سیند ک کے حوالے سے جو بھی معاہد ے ہوئے اور آج سیند ک اختتام کو پہنچ رہا ہے لیکن بلو چستان کو بمشکل اس میں سے 2فیصد نہیں مل رہا ہے انہوں نے کہا کہ ریکو ڈک سے متعلق ہم بلو چستان اسمبلی میں قرار داد لائیں گے اور ہم چاہیں گے کہ بلو چستان کے عوامی نمائندوں کو ان کیمرہ بریفنگ دی جائے کہ وفا ق سیند ک اور ریکو ڈک کے حوالے سے کیا فیصلہ کر نے جا رہی ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت معلومات شیئر کرے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پبلک اکاؤٹنس کمیٹی کے چیئر مین میر اختر حسین لانگو نے کہا کہ اسلام آباد میں ریکوڈک کے حوالے سے فیصلہ ہونے جارہا ہے ہمواضح کرنا چاہتے ہیں کہ ریکو ڈک کے حوالے سے بلو چستان اسمبلی میں کی قرار داد یں موجود ہیں اس حوالے سے سپر یم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ بھی آچکا ہے جس میں بلوچستان کے حصے کا تعین بھی کیا گیا ہے لیکن اسلام آباد میں ریکوڈک کا سودا ہونے جارہا ہے اور وزیراعلیٰ بلوچستان کو اسلام آباد طلب بھی کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو بھی اسمبلی کو اعتما د میں لیکر اس سودے اور عمل کا حصہ بننا چاہیے تھا لیکن وزیراعلیٰ تربت سے اسلام آباد اسمبلی و کابینہ اعتماد میں لئے بغیر ہی چلے گئے ہیں عوام کو معلوم نہیں کہ سیندک اور ریکوڈ ک کا سودا کس سے اور کن شرائط پر ہونے جارہا ہے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ایسا عمل ہوا تو ہم بلوچستان اس فیصلے کے نا پابند ہونگے اور نہ ہی اسکی ذمہ داری لیں گے ہوسکتا ہے کہ ہم سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں اور اسمبلی اجلاس اور اسمبلی سے باہر بھی اسکی مذمت اور مخالفت کریں گے انہوں نے کہا کہ مقدر قوتیں جو یہ کام کرنا چاہ رہی ہیں وہ بلوچستان کے عوام کے مرضی کے بغیر یہ عمل نہ کریں اگر وہ یہ عمل کریں گے تو اسکے نتائج کی ذمہ داری بلوچستان یا اسکے عوام پر نہیں ہوگی انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کی بعض شکوں پر عملدآمد نہیں ہورہا یہ مسئلہ صوبائی ہے اس مسئلے پر بلوچستان اسمبلی میں اعتماد میں لیکر فیصلہ کیا جائے نہ کہ وزیراعلیٰ یا کسی وزیرکے ساتھ ملکر چوری چھپے معاہدہ کیا جائے معاملے کی شرائط سامنے لائی جائیں انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو سے ہما را ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے کہ کل وہ بلوچستان کے وسائل کا سودا کریں اور ہم خاموش رہیں بلوچستان کے وسائل وسائل،حقوق کو کوئی بھی بیچنے کی کوشش کریگا ہم ان کے سامنے دیوار کی طرح کھڑے ہونگے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے رکن میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین اس مسئلے پر احتجاج کریں گے اس سودے کو 25سال تک کھینچا جائیگا اور سننے میں آیا ہے کہ بلوچستان کا حصہ پہلے کی نسبت بھی کم کر رہے ہیں ہمیں بتایا جائے کہ ریکوڈک کا سودا کس کے ساتھ اور کیوں کیا جارہا ہے اگریہ عوام کے مفاد میں ہے تو ہم ساتھ دیں گے 18ویں ترمیم کے بعد یہ صوبوں کا حق ہے لیکن اسلام آباد میں بیٹھ کر فیصلہ کیا جارہا ہے چوری چھپے کوئی فیصلہ نہیں ہونے دیں گے