حکومت چل نہیں رہی حکومت چلائی جارہی ہے ہم چلانے اور چلنے والوں کو جانتے ہیں ، مولانا فضل الرحمن

کوئٹہ (گرین گوادر نیوز) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر و جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت چل نہیں رہی حکومت چلائی جارہی ہے ہم چلانے اور چلنے والوں کو جانتے ہیں سہارے سے چلنے والی حکومت کو حکومت نہیں کہا جاتا حکومت چاہتی ہے کہ ساری قانون سازی 19نومبر سے پہلے کر لی جائے،پی ڈی ایم حکومت کی قانون سازی کو عدالت میں چیلنج کریگی، ججز کے حلفیہ بیانات نے عدالتی نظام پر داغ ڈالا ہے ان بیانات کی تحقیقات ہونی چاہیے، حکومتی اتحادیوں پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ووٹ دینے اور اپوزیشن اراکین کو اجلاس میں نہ آنے کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے، پیپلز پارٹی کا پی ڈی ایم واپسی کے حوالے سے مستقبل کیا ہے یہ طے نہیں اور اس پر بات نہیں ہوئی،وطن واپس آنے کا فیصلہ میاں نواز شریف خو د کریں گے ان سے ہمارے رابطوں کا یہ مطلب نہیں کہ وہ واپس آرہے ہیں۔یہ بات انہوں نے منگل کو کوئٹہ میں جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع کی رہائشگاہ پر پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے چیئر مین محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائم مقام صدر ملک عبدالولی کاکڑ، ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینئر نائب صدر سردار یعقوب خان ناصر، صوبائی صدر جمال شاہ کاکڑ سمیت دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈوکیٹ، حافظ حمد اللہ، عبدالرحیم زیاتوال، عبدالقہار ودران، عصمت اللہ سالم سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ تین سے چار ججز نے بیان حلفیہ دیکر گفتگو کر چکے ہیں یہ چیزیں عدالت پر ایسے داغ ڈال رہی ہیں جن سے ماضی کے تمام فیصلے مشکوک ہورہے ہیں ہم پھر بھی سمجھتے ہیں انکی عدالتی تحقیقات ہوں ایسے ادارے بنائے جائیں تو ججز کے بیانات کے عوامل سمجھ سکیں ججز کے بیانات کو جانچنا چاہیے ہر چیز پر مٹی ڈالنے سے کام نہیں چلے گا، ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت چل نہیں رہی حکومت چلائی جارہی ہے ہم چلانے اور چلنے والوں کو جانتے ہیں سہارے سے چلنے والی حکومت کو حکومت نہیں کہا جاتاحکومتیں عوام کے سہارے سے چلنی چاہیے جب اداروں کے سربراہان وزیراعظم کو منتخب وزیراعظم کے نام اور اپنے باس کے نام سے پکار تے ہیں تو ہمیں دکھ اور افسوس ہوتاہے ہمارے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن ہم ملکی صورتحال زیادہ خراب ہونے سے بچانے کیلئے وہ سب کہنے سے اضطراب کر رہے ہیں ہم صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے دن رات سوچتے ہیں ہمارے ان جذبات کا احترام کیا جائے انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو اکثریت حاصل نہیں ہے حکومتی اتحادی گزشتہ روز تک انہیں ووٹ دینے کو تیار نہیں تھے ہمارے پاس رپورٹیں ہیں کہ کن کن لوگوں کو سیف ہاؤس لیکر جا یا گیا او ر کس کس کو ٹیلی فون کئے گئے اپوزیشن ممبران کو اجلاس میں نہ آنے کے حوالے سے بھی کہا گیا ہے حکومت کے پاس جبری اور زبردستی کی چار سے پانچ ووٹوں کی اکثریت ہے اگر جبری طور پر گردن مروڑ کرووٹ حاصل کرنے سے کوئی قانون بنتا ہے تو وہ قانون کوئی حیثیت نہیں رکھتا اسکا مطلب یہی ہوگا کہ ملک جبر کے تحت چل رہا ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے عوام بجلی، گیس، گھی،پیٹرول کی توقع نہ رکھیں عوام یہی سوچتے ہیں کہ اگلے دن نرخ کتنے بڑھیں گے،ڈالر 175روپے سے تجاوز کرچکا ہے روپے کی قدر ختم ہوگئی ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سے رابطے پی ڈی ایم میں واپسی سے متعلق سنجیدہ عمل نہیں سمجھتے بلاول بھٹو زرداری میرے پاس آئے ہیں ہم نے کبھی کسی کو اپنے گھر آنے سے نہیں روکا اگر انہوں نے خیر سگالی مظاہرہ کیا ہے تو پی ڈی ایم کے حوالے سے انکا مستقبل کیا ہے یہ طے نہیں اور اس پر بات نہیں ہوئی انہوں نے کہا کہ میاں شہباز شریف اور مریم نواز کی عسکری قیادت سے ملاقاتوں کے حوالے سے علم نہیں ہے انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کو رونے کا بھی حق نہیں دیتی حکومت کے پاس نہ وژن ہے نہ سوچ اور نہ ہی کوئی فلسفہ ہے جنہوں نے حکومت کے لئے مہم چلائی تھی آج وہ اپنا سر پیٹ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف سے رابطوں کا کیا یہ مطلب ہے کہ وہ آرہے ہیں؟ کیا اس کے علاوہ ملک میں کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ یہ فیصلہ نواز شریف نے خود کرنا ہے کہ جب وہ چاہتے ہیں واپس آئیں ہم نے کل بھی زوم پر میٹنگ کی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت بڑکیں نہ مارے اگر اپوزیشن نے فیصلہ کیا کہ حکومت کو اٹھا کر باہر پھینک دے تو وہ کیا کریگی اور انکی حیثیت کیا ہے ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ بلوچستان کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر حکومت کی تبدیلی میں ساتھ دیا ہے ہم اپوزیشن میں ہیں اور یہ ہمارا فیصلہ تھا کہ حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے اور ہم اپنے حصول پر قائم رہے ہیں انہوں نے کہا کہ پنجاب میں حکومت گرانے سے پہلے اسکا متبادل دیکھنا ہے اگر متبادل اس سے بھی زیادہ خراب ہو تو کیا کریں گے سیاستدان اپنے حساب سے سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پی ڈی ایم اس وقت پاکستان کے عام آدمی کی آواز ہے اور انکی جنگ لڑ رہی ہے حکومت نے جس طرح ملک میں غربت، مہنگائی کی ہے اس میں پوری قوم پس رہی ہے آئے روز عوام پر مہنگائی، ٹیکسوں کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں پارلیمنٹ ہاؤس اور لاجز کے سامنے والدین بچے فروخت کر رہے ہیں،سند ھ میں پولیس آفیسر سرعام اپنی بچی فروخت کر نے کے لئے چلا رہاتھا لوگ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے خودکشیاں کر رہے ہیں لیکن نا اہل حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ہرناجائز حربہ استعمال کر رہے ہیں اور 22کروڑ عوام کو اپنا غلام سمجھ رہے ہیں پی ڈی ایم قوم کی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے اس حوالے سے آج کوئٹہ میں مہنگائی کے خلاف عوامی مظاہرہ ہوگا ہم پوری قوم کو ناجائز، چورحکمرانوں سے مقابلہ کرنے کے لئے متحرک کرنے کا موقف دے رہے ہیں پی ڈی ایم وہ سیاسی قوت ہے جو عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہے 20نومبر کو پشاور میں عوامظاہرہ کیا جائیگا انہوں نے کہا کہ ناجائز حکمران دھاندلی کی پیدوار حکومت آئندہ الیکشن میں بھی اپنی جعلی پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کر رہی ہے تاکہ وہ آئندہ انتخابات میں بھی دھاندلی کر ے لیکن حزب اختلاف اسکا مقابلہ کر رہی ہے اور گزشتہ اجلاس میں پارلیمنٹ کے اندر حکومت کو شکست بھی دے چکی ہے جسکی وجہ سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس پہلے ملتوی کیا گیا اور اب دوبارہ اجلاس طلب کیا گیا ہے جس کے حوالے سے افواہیں گردش کر رہی ہیں اور ہمارے پاس رپورٹ بھی ہے کہ چھوٹی جماعتوں کو ریاستی ادارے دباؤ میں لا کر اجلاس میں بلا رہے ہیں ہم اداروں کا احترام کر تے ہیں اور انہوں نے بھی کہا ہے کہ ہم غیر جانبدار ہیں ہم انکی بات پر اعتماد کرتے ہیں مگر آج ایک بار پھر غیر جانبداری مجروح کی جارہی ہے حکومت چاہتی ہے کہ 19نومبر سے قبل سب کچھ کر لیا جائے اسکی کیا ضرورت ہے نہ حکومت 19نومبر یا اسکے بعد کچھ کرنا چاہتی ہے یہ عمل تمام معاملے کو مشکوک بناتا ہے اور حکومتی اقدامات جمہوری اور پارلیمانی اقدار پر بد نما داغ ہیں اداروں کو سوچنا چاہیے کہ انہیں غیر جانبدار رہنا چاہیے ہماری خواہش بھی یہی ہے کہ ادارے غیر منتازعہ اور غیر جانبدار رہیں ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست سے مداخلت ختم ہونی چاہیے اگر ایسا ہوتا ہے تو اس پر گلہ اور شکایت کرنا ہمارا حق ہے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم نے شاہد خاقان عباسی، کامران مرتضیٰ ایڈوکیٹ، عطاء تارڑ ایڈوکیٹ کو ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ حکومت کے تمام قوانین کا جائزہ لیں جس کے بعد ہم ان قوانین کے نقائص پر عدالت سے رجوع کریں گے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم امن و امان پر یقین رکھتی ہے اور یہ تب ممکن ہے کہ جب صوبوں، عوام،شہریو ں کو انکے حقوق دئیے جائیں اور انکا مستقبل محفوظ ہوانہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ غم سے نڈھال ہیں اگر کسی نے جرم کیا ہے تو عدالتیں موجود ہیں مجرم کو سزا دی جائے لیکن جمہوری ملک میں آمرانہ اور بادشاہت کے اقدامات ہورہے ہیں ملک کی حاکم نادیدہ قوتیں ہیں یا آئین و قانونی طور پر منتخب ملک کے حاکم ہیں ہم عوام کو مطمئن اور انکا اضطراب ختم کرنا چاہتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے