وزیراعلیٰ جتنا وقت سوشل میڈیا اور وٹس ایپ کو دیتے ہیں اگر 16ناراض ارکان کو دیتے تو شاید یہ نوبت نہیں آتی،سردار اختر جان مینگل

کوئٹہ(گرین گوادر نیوز)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے تحریک عدم اعتماد میں حکومت کے پاس نمبر گیم پورے ہوتے تو وزراء،مشیران اور مشیران خاص استعفیٰ نہیں دیتے اس وقت تک 9ارکان اسمبلی اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے چکے ہیں اور وہ لوگ الگ ہیں جنہیں وزیراعلیٰ نے خود فارغ کیا تھا اگر ان تمام لوگوں کو گن لیا جائے تو وزیراعلیٰ خود مستعفیٰ ہوجاتے لیکن بد قسمتی سے وہ استعفے کے بجائے عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کا انتظار کر رہے ہیں،جام کمال خان کا اپنی جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ جو رویہ ہے شاید وہ واقعی سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ منتخب وزیراعلیٰ ہیں،وزیراعلیٰ جتنا وقت سوشل میڈیا اور وٹس ایپ کو دیتے ہیں اگر 16ناراض ارکان کو دیتے تو شاید یہ نوبت نہیں آتی۔یہ بات انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ جام کمال خان کا اپنی جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ جو رویہ ہے شاید وہ واقعی سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ منتخب وزیراعلیٰ ہیں انہوں نے اپنے ساتھیوں کو نظر انداز کیا ہے بلوچستان قبائلی معاشرہ ہے یہاں 6،6گھنٹے انتظار کروانا لوگ اپنی تذلیل سمجھتے ہیں انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعلیٰ اپنی جماعت کے لوگوں کو منا لیتے ہیں تو ہم انہیں روک نہیں سکتے لیکن ان کے درمیان منانے کی تمام حدیں پار ہوچکی ہیں وزیراعلیٰ جتنا وقت سوشل میڈیا اور وٹس ایپ کو دیتے ہیں اگر 16ناراض ارکان کو دیتے تو شاید یہ نوبت نہیں آتی،انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد میں حکومت کے پاس نمبر گیم پورے ہوتے تو وزراء،مشیران اور مشیران خاص استعفیٰ نہیں دیتے اس وقت تک 9ارکان اسمبلی اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے چکے ہیں اور وہ لوگ الگ ہیں جنہیں وزیراعلیٰ نے خود فارغ کیا تھا اگر ان تمام لوگوں کو گن لیا جائے تو وزیراعلیٰ خود مستعفیٰ ہوجاتے لیکن بد قسمتی سے وہ استعفے کے بجائے عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کا انتظار کر رہے ہیں سردار اختر جان مینگل نے کہاکہ وزیراعلیٰ جام کمال خان اکثریت کھو چکے ہیں بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 23ہے ہم نے 16ارکان کے دستخط سے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی ہے حکومتی اتحادی ناراض ارکان کی تعداد 16کے قریب ہے اگر انہیں ملا لیا جائے تو ہمارے پاس سادہ اکثریت بنتی ہے جو کہ وزیراعلیٰ کے خلاف ہے اگر صرف 10ارکان بھی ہمارا ساتھ دیں تب بھی ہم وزیراعلیٰ کے خلاف 33ارکان پورے کرنے میں کامیاب ہونگے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی تحریک عد م اعتماد پر گورنر نے بلا جواز اعتراض لگایا سمری اگر تھرو پراپر چینل نہیں بھیجی گئی تو اس میں گورنر سیکرٹریٹ، اسمبلی سیکرٹریٹ اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کا قصور ہے اپوزیشن کا نہیں لیکن ابھی تک ہمیں اس متعلق صرف زبانی طور پر آگاہ کیا گیا اور کسی بھی قسم کی سمری نہیں دی گئی اگر سمری ملتی ہے تو ہم قانونی چارہ جوئی، نئی تحریک عدم اعتماد لانے سمیت آئندہ کے لا ئحہ عمل پر غور کریں گے انہوں نے کہا کہ اگر ہم تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر عدالت چلے جاتے تو شاید اسمبلی کی مدت پو ری ہونے تک معاملے کا فیصلہ نہیں آتا جس طرح دیگر معاملات میں زیر التواء ہے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھیوں نے صلاح مشورہ کیا کہ 23لوگ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں بنا سکتے لیکن حکومت کے ناراض لوگوں سے جام کمال خان نے یا تو کمٹمنٹ کی یا پھر کسی نے کرائی کہ وہ چار اکتوبر کو مستعفیٰ ہونگے لیکن 8اکتوبر تک وزیراعلیٰ نے استعفیٰ نہیں دیا اگر حکومتی ارکان نے اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیا تو اپوزیشن جماعتیں اپنا آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کریں گی سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں جب بھی حکومت بنی اسے مختصر عرصہ کام کرنے چھوڑا گیا یا پھر اسکے کام میں مداخلت کی گئی اور صوبے میں کنٹرولڈ لوگوں کو لایا گیا سلیکٹڈ حکمران عوام مسائل نہیں بلکہ سلیکٹرز کے دروازوں کی طرف دیکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ جو جماعت راتوں رات بنی پھر وہ اسی طرح بکھرتی ہیں انہوں نے کہا کہ صرف پاکستان میں پارلیمنٹرین ترقیاتی فنڈز خرچ کرتے ہیں جو بھی شخص پارلیمنٹ میں منتخب ہو کر جاتا ہے اسکی اور عوام کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بنیادی مسائل حل کریں اپوزیشن کو بھی حکومت کے حلقوں کے برابر حصہ دینا چاہیے یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ غیر منتخب شخص جو کونسلری کی سیٹ نہیں جیت سکتا انہیں منتخب نمائندوں کے مقابلے میں فنڈز دئیے جائیں جب ایسا کیا جاتا ہے تو احتجاج کے طور پر اسکا ری ایکشن آتا ہے اور پھر اس احتجاج پر بکتر بند گاڑیاں چڑھائی گئیں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو وزیراعلیٰ جام کمال خان سے شکایت تھی کہ بجٹ میں تین سال منتخب نمائندگا ن کو نظر انداز کر کے غیر منتخب افراد کو پی ایس ڈی پی میں حصہ دیا گیاانہوں نے کہا کہ فنڈز کسی کی ذاتی میراث نہیں ہیں منتخب نمائندگان کی ترجیحات بجٹ میں شامل کی جانی چاہیے موجودہ نااہل حکمرانوں کے ہاتھوں ہر سال 30سے 40ارب روپے لیپس ہو کر وفاق کے پاس جارہے ہیں اسکا ذمہ دار کون ہے آج صوبے کا ہر طبقہ ریڈزون کے باہر احتجاج کر رہا ہے اور ان پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں تشدد کیا جاتا ہے ایسے حالات بلوچستان کے علاوہ کشمیر میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ اامن و امان ہے مرکز سے ہماری شکایات روز اول سے ہیں جنہیں اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن مرکز نے بھی انکی پرواہ نہیں کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے