پنجگور میں بدامنی کے واقعات میں ملوث عناصر کا تعین ہونا چاہئے، نصراللہ زیرئے

کوئٹہ​ (گرین گوادر نیوز) پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ پنجگور میں قتل وغارت گری کے واقعات جنگل کے قانو ن کے مترادف ہیں چند ماہ میں 38افراد کو قتل کیا گیا 70ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود حکومت اس قدر بے حس ہے کہ اسے پروا تک نہیں کہ ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے پنجگور سمیت صوبے میں ہونے والے بدامنی کے واقعات پر اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن بنایا جائے انہوں نے کہا کہ عثمان خان کاکڑ، ملک عبیداللہ کاسی، مچھ، مانگی ڈیم، پنجگور میں بدامنی کے واقعات میں ملوث عناصر کا تعین ہونا چاہئے چمن اور مکران میں منشیات فروشی سے نسل تباہ ہورہی ہے وزیراعلیٰ عوام کو تحفظ نہیں دے سکتے تو استعفے دے دیں حکومت بتادے کہ وہ عوام کے تحفظ میں ناکام ہے اور عوام خود اپنی حفاظت کرنے کا بیڑا اٹھالیں۔ بدامنی کے واقعات پر فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنایا جائے۔صوبائی وزیر میر اسد اللہ بلو چ نے کہا کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کا تحفظ کرے اگر ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی تو لوگ سڑکوں پر نکلیں گے ہمیں عوام کی آواز کو سننا ہوگا۔ پنجگور میں سینکڑوں خواتین بدامنی کے خلاف باہر نکلیں ضلع میں سات سو پولیس اور 45سو ایف سی اہلکار ہیں آئی جی پولیس خود چھ چھ کروڑ کی بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومتے ہیں یہ انہیں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے دی گئی ہیں تاکہ وہ عوام کا تحفظ کریں۔ میرے لئے ایک وزارت پنجگور کے عوام سے زیادہ نہیں ہے۔4ماہ قبل جب پنجگور میں میری مشاورت کے بغیر ڈی پی او کو تعینات کیا گیا تو کہا گیا کہ یہ اچھے افسر ہیں ایک ہفتے میں صورتحال بہتر ہوگی آج چار ماہ ہوگئے ہیں ضلع میں بدامنی نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں میرا کام قانون سازی کرنا ہے۔ امن وامان قائم کرنا قاتلوں کو گرفتار کرنا ڈی پی او کاکام ہے 22ہزار ووٹ لے کر آیا ہوں لیکن میرے خلاف بھی سازشیں ہورہی ہیں اگر عوام کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو پارلیمانی سیاست ہی چھوڑ دوں گا اور اگر میں نے پارلیمانی سیاست چھوڑی تو ارباب اختیار کے لئے مسئلہ ہوگا۔ کیا آئی جی اتنے طاقتور ہیں کہ وہ عوامی نمائندوں کو سننے کو تیار نہیں آج آئی جی اور چیف سیکرٹری کو پنجگور میں ہونا چاہئے تھا اور وہ لوگوں کو سنتے مگر ایسا نہیں ہوا ہم آئین وقانو ن کو مانتے ہیں عوام کے ٹیکس کے پیسے ان کی حفاظت کے لئے استعمال ہونے چاہئیں انہوں نے کہا کہ پنجگور، تربت، نوشکی، گوادر، مانگی سمیت صوبہ بھر حالات خراب ہیں کیا یہاں پر دانستہ طو رپر انتشار پیدا کیا جارہا ہے نقاب پوش موٹر سائیکل سوار اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ وہ لوگوں کو قتل کریں اور انہیں نامعلوم کیا جائے ہمیں نامعلوم معلوم ہیں کیا آئی جی اور چیف سیکرٹری کے بیٹے کے ساتھ پنجگور کے ساتھ واقعات ہوتے تو وہ خاموش رہتے انہوں نے کہا کہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لئے آخری سانس تک بولیں گے کیا یہ افغانستان جیسا ماحول پیدا کیا جارہا ہے یہ کون سی طاقت ہے جو عوام ہی کے خلاف استعمال ہوتی ہے سیاسی جماعتوں کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں اورکام کرنے والوں کو راستے سے ہٹا کر ٹھپہ ماروں کو آگے لانے کی کوشش ہورہی ہے سیاسی جماعتوں کو متحد ہونا ہوگا کچھ لوگوں کو پنجگور کی ترقی ہضم نہیں ہورہی جوحالات خراب کرنا چاہتے ہیں تین سال کے معصوم بچے کو قتل کرنے والوں کو کون شہہ دے رہا ہے انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی بنا کر آئی جی سے پوچھا جائے کہ بدامنی کون پھیلارہا ہے لوگ مررہا ہے اور آئی جی کہہ رہا ہے کہ پنجگور کے حالات ٹھیک ہیں صوبہ کو موجودہ آئی جی جیسے نام نہاد دبنگ نہیں بلکہ شریف اور عزت دار باوقار لوگوں کی ضرورت ہے جب سے یہ موجودہ آئی جی آئے ہیں صوبے کے حالات خراب ہیں وہ جہاں سے آئے ہیں انہیں وہیں رکھا جائے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ سے انصاف مانگتا ہوں اگر ہم عوام کی عدالت میں بولیں گے تو بہت کچھ کہیں گے۔ آج لوگ ایوان سے اس لئے نکل گئے کہ شاید انہیں ایک فون آیا ہوگا کہ وہ بیٹھے رہے تو ان کی ایم پی اے شپ چلی جائے دنیا بھر میں جرائم ہوتے ہیں لیکن قاتلوں کو گرفتار کرکے سزا دی جاتی ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ ضمیر کی بات کی اور کرتے رہیں گے۔بعد ازاں ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل نے رولنگ دی کہ صوبائی وزیر میر ظہوری بلیدی کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وزیراعلیٰ سے پنجگور کے معاملے پر کمیشن بنانے کی بات کی جائے گی لہٰذا تحریک التواء نمٹادی جاتی ہے جس کے بعد اسمبلی کا اجلاس سولہ ستمبر کی شام چار بجے تک ملتوی کردیاگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے