کوہلو، تھلیسمیا وباء کئی خاندانوں کے روشن چراغوں کو ان کے ہاتھوں سے چھین لیا ہے

کوہلو (گرین گوادر نیوز) بلوچستان میں یوں تو صحت کے حوالے سے صوبائی حکومت آئے روز بلند بانگ دعوے کرتی نظر آتی ہے مگر بلوچستان کے ضلع کوہلو کے تحصیل ماوند سمیت مختلف علاقوں میں گزشتہ 10سال سے تھلیسمیا کے موروثی مرض نے سینکڑوں بچوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا ہے یوں تو اس جان لیواء بیماری میں ہر عمر کے بچے شامل ہیں مگر زیادہ شرح 5سال سے لیکر 10سال کے بچوں کی ہے موروثی بیماری کے مریضوں میں تیزی سے اضافے نے مقامی لوگوں کو ناصرف ذہنی کوفت میں مبتلا کردیا ہے بلکہ اب تھلیسمیا کے مریضوں کیلئے خون کا حصول یہاں کے مقامی لوگوں کے لئے امتحان بن چکا ہے جہاں بچوں کی بڑی تعداداس موروثی بیماری کی لپیٹ میں ہے حالیہ ایک سروے کے مطابق اس وقت تحصیل ماوند میں 6 فیصدسے زیادہ بچے اس موذی مرض میں مبتلا ہیں ضلع میں ہر آئے روز مریضوں کی تعداد میں اضافے سے اب یہاں مریضوں کیلئے خون کا حصول مشکل بن گیا ہے جس سے کئی خاندان اپنے بچوں کے علاج کرنے سے قاصر اور بے بس ہیں انہوں نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ یہ ہمارے لئے ہر آئے روز اس لئے بھی خطر ناک صورتحال بن رہی ہے کہ ماوند میں بالعموم اور ضلع کے دوسرے علاقوں میں بالخصوص حکومتی سطح پر کوئی خاطر خواہ اقدامات دیکھنے کو نہیں ملتے ہیں ماضی قریب میں کئی نجی اداروں نے چند ایک خاندانوں کے مریضوں کو مفت خون اور ٹیسٹوں کی سہولیات فراہم کئے تھے مگر وہ بھی کچھ سالوں کے بعد مزیدسہولیات فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں اس کے علاوہ بلوچستان حکومت اور دیگر صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے سیمی گورنمنٹ ونجی اداروں کی جانب سے بنیادی علاج تو کُجا سروے اور کیس سٹڈی تک کرنے کی زحمت نہیں کی گئی ہے جس سے اس وقت ضلع میں اس موروثی مرض میں متاثرہ مریضوں کی کوئی فہرست موجود نہیں ہے یہاں کے مقامی لوگ متواسط گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں لوگوں کو پہلے ہی صحت کے دیگر بنیادی سہولیات کے فقدان کا سامنا ہے تھلیسمیا نے جہاں کئی خاندانوں کے روشن چراغوں کو ان کے ہاتھوں سے چھین لیا ہے وہی اس وقت کئی مریض بے یار مدد گار کسی مسیحا کی راہ تک رہے ہیں اور جان لیواء بیماری میں مبتلا مریض کئی سالوں سے حکومت کے توجہ کا منتظر ہیں کیونکہ بلڈ بینک،تھلیسمیالیبارٹری اوربلڈ ٹرانس پلانٹ نہ ہونے سے آئے روز مریضوں کے ورثانجی لیباٹریوں اور لوگوں کے پاس خون کے حصول کے لئے سرگرداں نظر آتے ہیں جب اس حوالے سے کوہلو کے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹرعطااللہ مری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ محکمہ صحت کی جانب سے کچھ گولیاں اور ادویات مہا کی جارہی ہیں جو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں دستیاب ہیں تاہم ہنگامی بنیادوں پر اقدامات تاحال شروع نہیں ہوسکے ہیں اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر نے بھی رپورٹ طلب کی تھی جس میں انہوں نے خواہش ظاہر کی کسی طرح حکومتی سطح پر ان مہلک مرض میں مبتلا مریضوں کی مدداور علاج معالجے کیلئے خطر خواہ اقدامات کئے جائیں انشااللہ جلدمریضوں کے لئے ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت اقدامات شروع کرئے گی ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر اب بھی اس موروثی بیماری کے روک تھام کے لئے شعورو آگاہی اور بروقت اقدامات میں تاخیر کی گئی تو آنے والے سالوں میں ضلع کے مختلف علاقوں میں موروثی بیماری مزید پھیل جائے گی اور ضلع کی بڑی آبادی اس سے متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگا کیونکہ یہ بیماری جینز کے ذریعے والدین سے بچوں میں منتقل ہوجاتا ہے اس کاسب سے بہترین اور بروقت روک تھام خاندانوں کے اندار شادیوں کو روکنے سے ممکن ہوگا کیونکہ اگر خدانخواستہ ماں باپ دونوں تھلیسمیا مائینز ہو تو ان کے پیدا ہونے والے بچے تھلیسمیا میجر ہونگے اس لئے ضروری بات یہ ہے کہ خاندانوں کے اندر شادی سے پہلے دونوں کے ٹیسٹ کئے جائیں اس طرح سے باآسانی تھلیسمیا کا راستہ روکا جاسکتا ہے تب جا کر ہم اس موروثی بیماری کے گرد دائرہ ڈالنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ضلع کوہلو کے متاثرہ مریضوں نے چیف سیکرٹر ی بلوچستان مطہر نیاز رانا،وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان،پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی،ڈپٹی کمشنر کوہلو عمران ابرھیم اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر شیر زمان مری فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر سروے کرکے متاثرہ مریضوں کے لئے اقدامات اور موروثی بیماری کے روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے