بلوچی اکیڈمی قومی نہیں بلکہ شخصی ادارہ بن چکا ہے، حامد علی بلوچ
کوئٹہ:کوئٹہ بلوچی اکیڈمی میں موجود کچھ منفی عناصر عرصہ دراز سے میرے خلاف میڈیا اور خاص سوشل میڈیا میں منفی پروپیگنڈے پھیلانے ، کردار کشی کرنے اور غیر سنجیدہ زبان استعمال کرکے میڈیا ٹرائیل کررہے ہیں، جس سے میر ی ساکھ اور اکیڈمک کرئیر کو نقصا ن پہنچ رہا ہے۔ بلوچی اکیڈمی میں ایک مخصوس لابی موجود ہے جو ایک آمرشخص کے اِشاروں پر ہمہ وقت وطن دشمن، قوم دشمن، زبان دشمن اور خفیہ اِداروں کے ساتھ وابستگی کا آٹپّہ لگانے پر دریغ نہیں کرتی۔ اِس لابی کو بلوچی اکیڈمی کے متعلق علمی بحث بھی قابل قبول نہیں۔
شوشل میڈیا استعمال کرنے والے صارفین کو بلوچی اکیڈمی کی اندرونی کہانی کا پتہ نہیں اِس لیے جو خبر اُن کی طرف سے شائع ہوتی ہے، اُسے حقیقت سمجھتے ہیں۔ بلوچی اکیڈمی میں اِس وقت شخصی آمریت ہے، جس میں ایگزیکٹو کمیٹی اور اراکین میں سے کسی کو بھی بات کرنے تک کا اختیار نہیں۔ میں نے کافی عرصہ اِن کے رویّوں اورمنفی پروپیگنڈوں پہ ضبط اور تحمل کا مظاہرہ یہ سوچ کر کیا تھا ، کہ بلوچی اکیڈمی ایک قومی اِدارہ ہے، اور بلوچ قوم کی ملکیت ہے، جس کو میری طرف سے کوئی گزند نہ پہنچے، لیکن بلوچی اکیڈمی میں موجود منفی سوچ رکھنے والی لابی بلوچی اکیڈمی کی ساکھ کو اتنا متاثر کر چکے ہیں کہ اکیڈمی اب قومی اِدارہ نہیں بلکیں شخصی اِدارہ بن چکاہے۔
۲۰۱۵ میں بلوچی اکیڈمی کی جنرل باڈی کی میٹنگ میں نے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ بلوچی اکیڈمی کی طرف سے شائع شدہ لغت ” بلوچی لبزبلد” پر کسی ایک فرد کا نام کیوں ہے، حالانکہ اِس ڈکشنری کی تکمیل کے لیے ۱۲ بندوں کا ایک ایڈیٹوریل بورڈ بنایا گیا تھا ، لیکن ڈکشنری میں ایڈیٹورل بورڈ کے کسی ممبر کا نام موجود نہیں۔ دوسری بات ڈکشنری کے رائٹس کی تھی۔ ایڈیٹر اِن چیف نے پبلیشنگ رائٹس بھی اپنے نام کردیے تھے، میرا سوال اُن سے یہ تھا کہ رائٹس اُس وقت ایڈیٹر یا منصف کے ہو سکتے ہیں، جب وہ پبلشنگ کے سارے اخراجات برداشت کرلے۔ ستم ظریفی کی بات تو ہے کہ اِس ڈکشنری کی چھپائی کے لیے کثیر رقم خرچ کی گئی تھی ، جس میں پینتالیس لاکھ روپے سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی، دس لاکھ روپے اکیڈمی ادبیات پاکستان، دس لاکھ روپے کوئٹہ کے ضلعی ناظم، دس لاکھ روپے شوکت عزیز اور پانچ لاکھ روپے کسی صوبائی وزیر نے بھی دیے تھے، لیکن ڈکشنری کے پیش لفظ میں کسی کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا گیاہے، اِس کے علاوہ جو رقوم بلوچی اکیڈمی سے خرچ ہوئیں اِن کا کسی کو بھی پتہ نہیں۔
بلوچی اکیڈمی میں پسند اور ناپسند کی بنیاد پر بلاوجہ ممبرز کووضاحتی خط لکھنا، تاکہ وہ اکیڈمی شرافت سے چھوڑ دیں ، ورنہ موٹا الزام لگا کے اکیڈمی سے فارغ کر دینا۔ مجھے یہ ساری باتیں ناگوار گزرتی تھیں اور میں اِن پر بحث و مباحثہ کرتا تھا۔ اِس کی ایک زندہ مثال بلوچی اکیڈمی کے سینئر ممبر فقیر محمد عنبر کی ہے۔ اُسے نکالنے کے لیے ایک میٹنگ بُلائی گئی ، اُس پہ یہ الزام تھا کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے، کام نہیں کرسکتا ۔ میں اِس رویے کا بڑا مخالف تھا اور اِس حوالے سے عبداللہ بلوچ اور ڈاکٹر کہور خان نے بھی میری حمایت کی تھی۔
جس پر ایک دو ا شخاص مجھ پر سیخ پا ہوگئے تھے۔ بلوچی اکیڈمی میں کتابیں چھاپنے کے لیے Evaluation کمیٹیاں تو بنی ہوئی تھیں، لیکن کمیٹی کے اِصرار پر شاذ و نادر کوئی کتاب ایوالوایشن کے بھیج دی جاتی تھی۔ ناکارہ اور سب اِسٹینڈرڈ کتابیں چھاپنے ، لاکھوں روپیہ ضائع کرنے کے حوالے سے جب ایگزیکٹو کمیٹی میں بات ہوتی تھی تو ایک تو اِشخاص کا رویہ سخت اور لہجہ تلخ ہوتا تھا اور اُن کو ہر علمی بات ناگوار گزرتی تھی چوتھی وجہ یہ تھی کہ اکیڈمی نے ایک معزز ممبر پر چوری کا الزام لگایا تھا جس کی میں نے سخت مخالفت کی تھی ، اِس پر کافی گرما گرم بحث ہوئی تھی اور اُن کا یہ مشن اُس وقت ناکام ہوگیا۔
بلوچی اکیڈمی ہر فورم میں میرے اوپر چوری اور پیسہ کھانے کا الزام لگاتی ہے، جو ایک مضحکہ خیز اور غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ کسی کو بدنام کرنے اور چوری کا الزام لگانے والا مائنڈ سِٹ بلوچی اکیڈمی میں کئی سالوں سے متحرک العمل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ میں نے دو سال تک بلوچی انسائیکلوپیڈیا پہ کام کیا تھا اور چالیس ہزار روپے میرے کام کے عوض ایگزیکٹو کمیٹی کی منظوری کے بعد مجھے دیے گئے تھے۔
اور اُن میٹنگ میں ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران کے دستخط ہیں اور انسائیکلوپیڈیا پر میں نے جو کام کیے ہیں، اُن کے سارے ثبوت میرے پاس موجود ہیں۔ اِس کے علاوہ بلوچی اکیڈمی نے انسائیکلوپیڈیا کنٹری بیوٹرز کے پیسے ابھی تک ریلیز نہیں کیے ہیں۔ جن میں اِٹلی کی ایک خاتوں پروفیسر بھی شامل ہیں۔ اُس نے پیسوں کے حوالے کئی مرتبہ ای میلز بھی کی ہیں، لیکن بلوچی اکیڈمی پیسہ دینے سے انکاری ہے، جس سے بین الاقوامی سطح پر بلوچی اکیڈمی کی بدنامی ہوئی ہے۔
اطالوی پروفیسر کی ساری ای میلز بھی میرے پاس موجود ہیں، جنہیں ثبوت کے طور پر میں عوام کے سامنے کسی بھی وقت پیش کرسکتا ہوں بلوچی اکیڈمی کے سنجیدہ ممبران سے میری گزارش ہے ، کہ وہ اِس مخصوص لابی سے بات کرکے قومی اِدارے کو نقصان سے بچائیں۔ اِس طرح کے منفی پروپیگنڈہ، متعصبانہ اور غیر سنجیدہ رویوں سے نہ صرف بلوچی اکیڈمی کی ساکھ پہ اثر پڑ رہا ہے، بلکیں پوری قوم بدنام ہورہی ہے