بلوچوں کو اپنی شناخت اور تشخص،ساحل وسائل کی فکر لاحق ہے ،عبدالمالک بلوچ

کوئٹہ:نیشنل پارٹی کے سربراہ وسابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہاہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے بنیادی وجوہات دیکھنے کی ضرورت ہے،پرویز مشرف کی غلط پالیسی کی وجہ سے پچھلے 15سالوں سے بلوچستان آگ میں جل رہاہے اگر پرویز مشرف چاہتاتو بلوچستان کو اس آگ سے بچایاجاسکتاتھا،کسی بھی انسرجنسی کو بندوق کے ذریعے ڈیل نہیں کیاجاسکتا،بلوچوں کو اپنی شناخت اور تشخص،ساحل وسائل اور واک واختیار کی فکر لاحق ہے کیا اسلام آباد میں بیٹھا وقت کاحاکم اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرے گا،وزیراعظم کابیان صرف بیان تک محدود ہے جس میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے تمام فیصلے اسٹیبلشمنٹ کرتے ہیں میں اور شاہ زین بگٹی توصرف برج کاکردارادا کرتے ہیں دونوں جانب لوگ راضی ہوں تو معاملے آگے بڑھائی جاسکتی ہے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہاکہ نیشنل پارٹی نے شروع دن سے بات چیت کی حمایت کی ہے اور اس مسئلے کا حل بندوق کی بجائے مذاکرات ہے لیکن ماضی کے تجربات ہے میں سمجھتاہوں کہ یہ مسئلہ کے مختلف روخ ہے یہ صرف مذاکرات تک محدود نہیں کہ مذاکرات کے بعد مسائل حل ہونگے بلوچستان میں جو کچھ ہواہے یا ہورہاہے ان تمام چیزوں کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے اور پھر مذاکرات کامرحلہ شروع کرناپڑے گا،انہوں نے کہاکہ یہاں عام بلوچ کے ذہن میں سب سے بڑا اسلام آباد کابلوچستان سے متعلق کئی دہائیوں سے جاری رویہ ہے کیا اسلام آباد کے حاکم اپنی مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرینگے ہر بلوچ یہ فکر لاحق ہے کہ ان کی شناخت اور تشخص کو خطرہ ہے اس کو اسلام آباد کیسے ایڈریس کرے گا کیا اس حوالے سے کوئی بل لایاجائے گا بلوچستان کے ہر بلوچ فکر مند ہے کہ میرا ساحل وسائل جس میں سوئی گیس پہلے ختم ہوگیاسیندک پہلے ختم ہوگیا،ریکوڈک اور گوادر کیا ہوگا ان میں مجھے کچھ نہیں ملا ان میں بھی کچھ نہیں ملے گا سب سے بڑا مسئلہ کہ بلوچستانی عوام کی اپماورمنٹ لیکن لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں تو ٹپے لگتے ہیں جو حقیقی نمائندے ہیں وہ کبھی اسمبلی تک نہیں پہنچ پاتے یہ وہ مسائل ہیں جب تک ان پر کام نہیں ہوگا مسائل جوں کے توں رہیں گے،میں مذاکرات کے حق میں ہوں لیکن وزیراعظم کا جو بیان ہے وہ صرف ایک بیان سمجھتاہوں جس میں کوئی سنجیدگی نہیں انہوں نے کہاکہ بدقسمتی یہ ہے کہ پنجاب میں بیٹھے لوگوں کو ہماری باتیں سمجھ نہیں آتی میں نے لوگوں کی اپماورمنٹ کی بات کی کہ یہاں الیکشن غیرجانبدار شفاف ہونی چاہیے میں نے کسی عہدے کی بات نہیں کی ہے بلوچستان کے مسائل ملٹی ڈائمنشن ہے کبھی بھی کوئی بھی انسرجنسی بندوق کی زور پر ڈیل نہیں کی جاسکتی انسرجنسی کے اندر 80فیصد دوسرے عوامل سیاسی،معاشی،سماجی مسائل ہیں بلوچستان میں پانچواں انسرجنسی جاری ہے،میں نے مذاکرات اس وقت شروع کئے جب آل پارٹی کانفرنس میں جس میں عسکری قیادت بھی بیٹھی ہوئی تھی ان لوگوں نے کہاکہ آپ جا کربات کرے میں نے جا کر بات کی جب لوگ راضی ہوگئے تو پھر دوسری جانب سے بالخصوص عسکری قیادت نے معاملات کو ادھورا چھوڑ دئیے یہ تو بہت اچھی بحث چل رہی ہے بلوچستان کو بھلادیاگیاتھا لیکن اب ہماری شکلیں مختلف چینلز پر آرہی ہے لیکن مجھے نہیں لگتاکہ یہ کامیاب ہوگی پاکستان شناخت ہے لیکن یہ کثیر القومی ریاست ہے جہاں

پشتون،بلوچ،پنجابی،سرائیکی،سندھی رہتے ہیں کیا میں اپنی زبان کی قربانی دوں گا میں ہرگز اپنی بلوچی زبان،کلچر اور تاریخ کو نہیں چھوڑ سکتا پاکستان ہمارا ملک ہے پاکستان کے آئین اور سیکورٹی کی عزت کرتے ہیں لیکن میری اپنی بھی شناخت ہے بلوچ ہوں جب تک اس شناخت کو تسلیم نہیں کیاجاتا یہ سلسلہ چلتارہے گاانہوں نے کہاکہ نوابزادہ شاہ زین ہمارے لئے قابل احترام ہے یہاں فیصلے عسکری قیادت کرتی ہے وہ جو فیصلے کرتے ہیں شاہ زین ہو یاپہلے میں تھا ہم زیادہ سے زیادہ برج کاکرداراداکرسکتے ہیں فیصلے ہم نہیں کرسکتے یہاں جو مختلف عسکریت پسند گروپس کام کررہے ہیں کیا وہ اس بات پر راضی ہوں گے یا نہیں ہوں گے؟ یہاں تو سب سے مضبوط اتحاد براس ہے جس میں چار تنظیمیں کام کررہی ہے جب دونوں جانب لوگ راضی ہونگے تب بات آگے بڑھے گی میں اپنی تجربے کی بات کررہاہوں کہ میں نے جو خواری کی تھی وہ سبوتاژ ہوگئی پرویز مشرف کی غلط پالیسی کی وجہ سے پچھلے 15سالوں سے بلوچستان آگ میں جل رہاہے یہ جنگ نہیں ہوناچاہیے تھا نواب اکبر خان بگٹی میرے لئے قابل احترام ہے میں نے ان کے ساتھ کام کیاہے جب کسی کے گھر کے اندر گھس کر کسی کو مارو گے تو اس کا ردعمل توآئے گا اگر مشرف چاہتاتو یہ جنگ نہیں ہوسکتا تھا دیگر عوامل بعد کی بات ہے ہمیں اس جنگ کے شروع ہونے کے وجوہات دیکھنے کی ضرورت ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتاکہ کس سے بات ہورہی ہے اور کون بات کررہاہوں میں جب وزیراعلیٰ تھا تب میں نے بات کی لیکن اب تو میرے اختیار میں کچھ نہیں وژن صاف ہو کوئی ٹارگٹ ہوتو کچھ حاصل ہوسکتاہے لیکن اگر معاملہ صرف بیانات تک محدود ہوں تونتیجہ صفر ہوگا یہاں اعتماد کافقدان ہے اگر اعتماد بحال ہوں تو چیزیں آگے بڑھیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے