ماضی میں بھی کئی دفعہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کیے گئے اس کا کیا نتیجہ نکلا،سردار اختر مینگل
کوئٹہ:بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ ہرطبقہ ناراض ہے،اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے والے ہر شخص کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں،پیچیدہ ترین مسئلہ کا حل بھی مذاکرات سے ہوتا ہے تاہم کچھ قوتیں نہیں چاہتیں کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہو، ان میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق حکومت سے ہے، کچھ لوگوں کو گملوں میں اگا کر بلوچستان کا لیڈر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہ عناصر کبھی نہیں چاہیں گے کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہو،مجھے نہیں معلوم حکومت کن بلوچوں کو ناراض کہتی ہے،ہمیں کوئی بھی لقب دیں قبول ہے لیکن یہاں سیاست کرنے دیں ان خیالات کااظہار انہوں نے جیونیوز سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچوں کی ناراضی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب وہ اس کا اظہار ہی نہیں کرتے ہیں، مجھے نہیں معلوم حکومت کن بلوچوں کو ناراض کہتی ہے، حکومت نے ابھی تک واضح نہیں کیا کہ باہر بیٹھے ہوئے، پہاڑوں میں بیٹھے ہوئے یا شہروں میں بیٹھے ہوئے کن بلوچوں سے بات ہوگی، البتہ کچھ وزرا جنہیں وزارتیں ملی ہیں ان کے علاوہ بلوچستان کے سب لوگ ریاست سے ناراض ہیں انہوں نے کہا کہ اس سے بڑے مسئلے بھی مذاکرات سے حل ہوئے ہیں اور یہ مسئلہ بھی مذاکرات سے ہی حل ہو سکتا ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ حکومت مذاکرات کے معاملے پر سنجیدہ ہے البتہ خطے کے جو بدلتے حالات ہیں ان کی وجہ سے مذاکرات کا شوشہ چھوڑا گیا ہے کیونکہ ناراضگی تو سب کے ساتھ ہو رہی ہے انہوں نے کہا ناراض وہ ہوتے ہیں جن کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے پشتون اور سندھی بھی ناراض ہیں صحافی اور نیوز چینل والے بھی ناراض ہیں مگر بلوچوں کیلئے یہ شوشہ اس لیے چھوڑا جا رہا ہے کیونکہ خطے کے حالات بدل رہے ہیں اور ان کے اثرات ملک پر بلخصوص بلوچستان پر ضرور پڑتے ہیں امریکی و نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد طالبان کی پیش قدمی کے اثرات پاکستان پر بھی آئیں گے انہوں نے کہا کہ ہمیں ماضی میں غداروں اور ملک دشمن کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا، ہمیں کوئی بھی لقب دیں قبول ہے لیکن یہاں سیاست کرنے دیں۔ماضی میں بھی کئی دفعہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کیے گئے اس کا کیا نتیجہ نکلا، اکبر بگٹی کی شہادت سے پہلے ان کیلئے جہاز بھیجا گیا تھا جسے واپس کیا گیا اس کے بعد نواب اکبر بگٹی کو شہید کردیا گیا، کیا ان کے کفن پر تالے لگانا بھی مذاکرات کا حصہ تھا، کیا ہزاروں کی تعداد میں اغوا کیے گئے لوگ بھی مذاکرات کا حصہ ہیں۔ اختر مینگل نے کہا کہ کچھ قوتیں نہیں چاہتیں کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہو، ان میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق حکومت سے ہے، کچھ لوگوں کو گملوں میں اگا کر بلوچستان کا حقیقی لیڈر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ عناصر کبھی نہیں چاہیں گے کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہو۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ مذاکرات ہر دور میں کئے گئے ہیں ایوب خان کے دور میں بھی مذاکرات ہوئے تھے آغا عبدالکریم خان کے ساتھ بھی مذاکرات ہوا نواب نوروز کے ساتھ بھی مذاکرات ہوا جبکہ نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کرنے سے پہلے بھی مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی مگر جو حقیقی قووتیں ہیں وہ اس مسئلے کا حل نہیں چاہتے کیونکہ اگر بلوچستان کا مسئلہ حل ہو گیا تو ہمیں اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا انہوں نے کہا کہ میں نہیں کہتا کہ مذاکرات میں صرف ایک فریق سنجیدہ نہیں بلکہ دوسرے فریق کی طرف سے بھی ایسے لوگ ہوں جو مذاکرات کے خلاف ہیں مگر حکومت کی طرف سے ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو نہیں چاہتے کہ مذاکرات ہوں انہوں نے کہا کہ صرف لوگوں کے نامزد کرنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے ہیں بلکہ مسئلہ حل کرنے کیلئے سنجیدگی کی ضرورت ہے۔