لالا عثمان خان کاکڑ کی موت کے تحقیقات کیلئے کمیشن پر رجسٹرار کے تحفظات
کوئٹہ (گرین گوادرنیوز) بلوچستان حکومت کی جانب سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے صوبائی صدر اور سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے 2 رکنی عدالتی کمیشن پر رجسٹرار بلوچستان حکومت نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کو لکھے گئے جوابی خط میں رجسٹرار بلوچستان ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ عدالتی کمیشن کے قیام کیلئے حکومت کسی جج کو نامزد نہیں کرسکتی ہے۔ عدالتی کمیشن کاقیام چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار ہے۔رجسٹرار بلوچستان ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت عدالتی کمیشن کے قیام سے متعلق اپنی درخواست میں ترمیم کرے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز صوبائی محکمہ داخلہ نے بلوچستان ہائی کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ سابق سینیٹرعثمان کاکڑ کی موت کی وجوہات جاننے کے لیے صوبائی حکومت نے دو ججز پر مشتمل عدالتی کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔صوبائی حکومت کی جانب سے بلوچستان ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ عدالتی کمیشن کے اراکین کے طور پر ہائی کورٹ کے جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس ظہیر الدین کاکڑ کو نامزد کیا گیا ہے۔
صوبائی محکمہ داخلہ نے بلوچستان ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے ان نامزدگیوں کو ان 2 ججز تک پہنچانے اور باضابطہ طور پر کمیشن کے قیام کے نوٹی فکیشن جاری کرنے کی درخواست کی تھی۔وزیراعلیٰ بلوچستان کے احکامات پر محکمہ داخلہ و قبائلی امور بلوچستان نے رجسٹرار بلوچستان ہائی کورٹ کو جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کے لئے خط لکھ دیا تھا۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کے مطابق بلوچستان ٹربیونل آف انکوائری آرڈیننس 1969 کے سیکشن تھری کی ذیلی شق ایک کے تحت بلوچستان ہائی کورٹ سے جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس ظہیر الدین کاکڑ پر مشتمل دو رکنی کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ عثمان کاکڑ 17 جون کو اپنے گھر پر چوٹ لگنے سے شدید زخمی ہوگئے تھی۔ بعد میں انہیں کراچی منتقل کردیا گیا تھا۔ وہ دوران علاج 21 جون کو انتقال کرگئے تھے۔ سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کے اہلخانہ نے الزام لگایا تھا کہ ان کو ایک سازش کے تحت قتل کیا گیا ہے۔