بلوچستان میں محفوظ انتقال خون کے لئے رائج قوانین کو بہتر بنایا جارہا ہے،ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی
کوئٹہ:پارلیمانی سیکرٹری صحت ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں محفوظ انتقال خون کے لئے رائج قوانین کو بہتر بنایا جارہا ہے خون اور اجزائے خون کا استعمال انسانی زندگیاں بچانے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے بروقت انتقال خون انسانی زندگی بچانے کیلئے ضروری ہے تاہم خون کا مکمل طور پر اسکرین شدہ ہونا بھی ناگزیر ہے۔ غیر اسکرین شدہ خون انسانی جسم کو مختلف قسم کے امراض میں مبتلا کر سکتا ہے عالمی یوم انتقال خون کی مناسبت سے جاری اپنے ایک بیان میں پارلیمانی سیکرٹری صحت بلوچستان نے کہا کہ ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے اْن آٹھ دنوں میں سے ایک ہے جو ہرسال عالمی ادارہ صحت کی طرف منائے جاتے ہیں ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے کا مقصد لوگوں میں خون دینے کی آگاہی اور شعور پیدا کرنا ہے عطیہ کئے گئے خون سے ضرورت مند لوگوں کی جانیں بچائی جاتی ہیں یہ دن سب سے پہلے 2004میں منایا گیا اِس دن کو ہر سال 14جون کو نوبیل انعام یافتہ سائنسدان کارل لینڈ سٹینر کی پیدائش (14جون 1868) کی مناسبت سے منایا جاتا ہے جنہوں نے A,B,O بلڈ گروپنگ سسٹم کو دریافت کیا، جسکے نتیجے میں 1907میں ریوبن اْٹن برگ نے ماؤنٹ سینین اسپتال نیو یارک میں پہلی مرتبہ بلڈ ٹرانسفیوڑن کا تجربہ کیا۔اس تجربہ کی کامیابی کے بعد بیشمار مریضوں کی زندگیاں بچانا ممکن ہوا اس دِن کو منانے کا مقصد بلڈ ڈونرز کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو بلا معاوضہ خون عطیہ کرکے دوسرے لوگوں کی زندگیاں بچاتے ہیں۔ اِس کیساتھ ساتھ دوسرے انسانوں کی جان بچانے کیلئے صحت مند خون اور خون کی فراہمی کی اہمیت پر زور دینا بھی ہے۔ خون کا عطیہ دینے والوں کا شکریہ ادا کرنا اور عطیہ خون کیلئے آگاہی دینا ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری صحت ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا صحت مند انسان تین ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے، سائنسی تحقیق کے مطابق یہ قدرتی عمل ہے کہ 90سے 120دن کے اندر سرخ خلئے ختم یا ضائع ہو جاتے ہیں لہذا بہتر ہے کہ خون عطیہ کیا جائے ایک اندازے کے مطابق ہر سال دْنیا میں 112.5ملین بیگ خون اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اِس میں سے 47 فیصد خون ترقی یافتہ ممالک میں اکٹھا ہوتا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا میں 57 فیصد ملکوں میں 100فیصد خون براہ راست ڈونر سے بلا معاوضہ عطیہ کیا جاتا ہے عطیہ کیے گئے خون کے ایک بیگ سے تین اجزاء تیار کئے جاتے ہیں جو مختلف مریضوں کو لگائے جاتے ہیں اور اس طرح خون کا ایک بیگ عطیہ کر کے تین انسانی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ ایک طبی اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ 8000خون کی بوتلوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ کل آبادی کا صرف ایک فیصد لوگ خون کا عطیہ کرتے ہیں جو کہ نا کافی ہے، جبکہ عطیہ کردہ خون کا 60 فیصدتھیلیسیمیا کے مریض بچوں کے استعمال میں آتا ہے باقی دیگر عطیہ کیا گیا خون بہت سی طبی پیچیدگیوں، قدرتی ا?فات اور عمل جراحی کے دوران استعمال کیا جاتا ہے اگر پاکستان میں عطیہ خون کا تناسب چار سے پانچ فیچد فیصد تک ہو جائے تو بہت سی قیمتی انسانی زندگیوں کے چراغوں کو روشن رکھا جا سکتا ہے جو کہ عطیہ خون کی عدم دستیابی کی وجہ سے گْل ہو جاتے ہیں۔اِس دن کی مناسبت سے قومی و صوبائی سطح پر بلڈ ڈونرز کی تعداد بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ بلڈ ڈونیشن کے رجحان میں اضافہ کرنے کے لئے پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلائی جائے اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے تاکہ عوام میں بلڈ ڈونیشن کے شعور کو اْجاگر کیا جا سکے۔