تمام جماعتوں کا وزیر اعلیٰ بلوچستان پر اعتماد ہے‘ حزب اختلاف اسمبلی میں جھوٹی تقاریر کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے‘صوبائی وزراء

کوئٹہ:بلوچستان کے وزراء نے حزب اختلاف کی جانب سے اسمبلی میں حکومتی کارکردگی کو مایوس کن قرار دینے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے پہلی بار 162 ارب روپے کی اسکیمات وفاقی حکومت سے منظور کروائیں ہے اور صوبے میں ریکارڈ ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ جس میں کوئٹہ میں سریاب روڈ، ہنہ، نواں کلی، مغربی بائی پاس، ڈیرہ مراد جمالی، مغربی بائی پاس روڈ، بیلہ جاوا روڈ، نوکنڈی ماشکیل، چمن کوئٹہ کراچی شاہراہ سمیت دیگر شاہراہوں اور ڈیمز کی تعمیر کو ممکن بنایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ 39 کالجز کی اپ گریڈیشن، ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن سمیت 57 قانون سازیاں کی گئیں۔ پہلی بار حکومت نے موجودہ پی ایس ڈی پی کی ایلوکیشن میں سے 73 بلین روپے ریلیز کئے ہیں۔یہ بات پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات و نشریات بشریٰ رند، وزیر خزانہ ظہور بلیدی، وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو، عبدالخالق ہزارہ، میر سلیم کھوسہ، مبین احمد خلجی، ماجبین شیرین نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کر تے ہوئے کہی۔ بشریٰ رند نے کہا کہ حکومت کوئٹہ ڈویلپمنٹ پیکج کے تحت کوئٹہ میں پہلے کینسر ہسپتال کی تعمیر کاکام جاری ہے۔ جبکہ امراض قلب کے ہسپتال کی تعمیر کا 80 فیصد کام مکمل کرلیا ہے۔ نواں کلی ہسپتال کی تعمیر کے ساتھ ساتھ 7 منی سپورٹس کمپلیکس، ایوب اسٹیڈیم میں ہاکی گرانڈ کی تعمیر، 7 بلین روپے کی لاگت سے 6رویہ سریاب روڈ کا منصوبہ، نواں کلی 4 رویہ سڑک کی تکمیل 90 فیصد، ہنہ 4 رویہ سڑک کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ پٹیل، پرنس روڈ توسیع منصوبہ، کوئٹہ میں پانی کی قلت کم کرنے کے لئے 3 ڈیمز کا منصوبہ جبکہ سریاب اور کچلاک کو کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی حدود میں شامل کرنے کا منصوبہ، میاں غنڈی پارک کی بحالی کے ساتھ ساتھ ایئر پورٹ روڈ پر سائیڈ پارکس، جوائنٹ روڈ 4.4 کلو میٹر کی توسیع، کلیئرنگ الائننگ، سبزل روڈ 6.5 کلو میٹر کی توسیع، سریاب روڈ سے ملحقہ سڑکیں، گلیاں 130 کلو میٹر، 3 فٹسال گرا?نڈ کی تعمیر، 7 پارکوں کی بحالی، 3 نئے لنک روڈز کی تعمیر، ریڈیو پاکستان سے مغربی بائی پاس 3.5 کلو میٹر، ہزارہ ٹاؤن سے مغربی بائی پاس 6.5 کلو میٹر اور 3 کلو میٹر دو رویہ بادینی لنک روڈ کی تعمیر ممکن بنائی جارہی ہے جس سے ٹریفک جام کا مسئلہ حل ہوگا۔ اور لوگوں کو پینے کے صاف پانی اور کھیلوں کی سہولیات میسر آئیں گی۔ اور پارکوں کی تعمیر سے تفریح کے مواقع ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر جام کمال عوام سے کئے جانے والے وعدے پورے کررہے ہیں۔ جس میں یونیورسل ہیلتھ کارڈ کے منصوبے کی کابینہ منظوری دے چکی ہے۔ اس کارڈ سے ہر شہری کو 5 سے 10 لاکھ روپے علاج کی سہولت ملے گی۔اور آنے والے مالی سال کے بجٹ میں ہیلتھ انشورنس اسکیم کے لئے ساڑھے 5 ارب روپے رکھے جائیں گے اور بلوچستان ہیلتھ کارڈ پروگرام پر عمل کرنے کے لئے 70 اسامیوں کی کنٹریکٹ بنیاد پر تخلیق کی جائیں گی۔ کوئٹہ کراچی شاہراہ کو دو رویہ بنایا جائے گا۔ اس سال بھی پہلے 7 ماہ میں 886 لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ وزیر اعلیٰ کی کوششوں سے وزیر اعظم عمران خان نے 330.52 کلو میٹر خضدار سے کچلاک اور خضدار سے کراچی، کچلاک سے چمن شاہراہ کو 2 رویہ بنانے کے لئے منظوری دے دی ہے جس پر 81582 ملین روپے لاگت آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے مسائل کے حل کے لئے واٹر ٹاسک فورس کا قیام، انجینئرز کیلئے پنجاب انجینئر اکیڈمی کی پری سروس اور ان سروس تربیت 2019-20ء کی پی ایس ڈی پی میں واٹر سپلائی سکیموں کی شمسی توانائی پر منتقلی صوبائی حکومت کی انوویشن لیب کی معاونت فلٹریشن پلانٹس کی ڈیٹا مینجمنٹ اور آئی ٹی کی بنیاد پر مانیٹرنگ بڑے ٹا?ن شپس میں کمپیوٹرائزڈ ولنگ کلیکشن کے نظام کا قیام، بلوچستان عوامی انڈومنٹ فنڈ کے ذریعے عوام کو کینسر اور دیگر موذی امراض کے 1500 سے زائد مریضوں کی معاونت کی گئیں۔ اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 2 ارب روپے کا اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی نئے پکنک پوائنٹ جس میں کوئٹہ میں مونال اسلام آبا دکی طرز پر تفریحی مقام کی تعمیر کا منصوبہ تیزی سے کام جاری ہے۔ نئے پکنک پوائنٹ کی تعمیر سے لوگوں کو تفریح کی سہولیات میسر آئیں گی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدی نے کہا کہ حکومت لوگوں کے مسائل کے حل کو ممکن بناتے ہوئے ترقیاتی منصوبے اور روزگار کی فراہمی کے لئے اقدامات اٹھارہی ہے۔ پہلی بار حکومت نے دو بجٹوں کو کامیابی سے پیش کیا۔ ہماری کوشش ہے کہ تیسرا بجٹ تمام ساتھیوں کی مشاورت سے زیادہ بہتر پیش کیا جائے تاکہ لوگو ں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دے سکیں۔ کیونکہ بجٹ میں مشاورت کے ذریعے لوگوں کی ضرورتوں اور ملازمین کی ڈیمانڈز ترقیاتی منصوبوں کو فوکس کیا جائے گا۔ پہلے بجٹ میں صوبے میں 25 بلین پی ایس ڈی پی کے ریلیز کئے گئے اور دوسرے بجٹ میں 73 بلین استعمال کئے جاچکے ہیں۔ ہم نے بلا تفریق صوبے کے ہر حلقے اور سیکٹر میں ترقیاتی منصوبے بنائے ہیں ماضی میں نظر انداز ہونے والے علاقوں اور محکموں کو ترجیحی طور پر شامل کرکے محرومیوں کے ازالے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں 162 ارب روپے کی صوبائی حکومت اپنی اسکیمات شامل کروانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ان اسکیمات میں بیلہ جاوا، نوکنڈی ماشکیل، کوئٹہ کا مغربی بائی پاس، ڈیرہ مراد جمالی مغربی بائی پاس، چمن کوئٹہ کراچی شاہراہ سمیت 41 دیگر اسکیمات کے ساتھ ہی حقیقی بڑے ڈیمز جس میں جھل مگسی میں نولنگ، خاران میں گروک ڈیمز، پنجگور، تربت، گوادر، جیونی میں اربوں روپے کی لاگت سے ڈیمز کی تعمیر، جیونی میں خواتین پانی کے حصول کے لئے سراپا احتجاج رہتی ہے۔ ان ڈیمز کی تعمیر سے 28 لاکھ گیلن پانی کی ضروریات پوری ہوں گی۔ سوشل سیکٹر پر ماضی میں توجہ کم تھی ہم نے 8 ڈسٹرکٹ ہیلتھ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن کرکے ٹیچنگ ہسپتال بناکر 280 پروفیسرز تعینات کرکے شیخ زید، فاطمہ جناح ٹی بی سینٹوریم ہسپتال کو فعال بناتے ہوئے گزشتہ برس 10 بلین روپے محکمہ صحت کے شعبے کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلی بار ملازمتوں کی فراہمی کے لئے کلاس فور کی ملازمتوں کے علاوہ ہدف مقرر کیا ہے تاکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار مہیا کرسکیں اس کے علاوہ ایجوکیشن کے شعبے کی بہتری کے لئے ہائیر ایجوکیشن کا سسٹم تباہ حال تھا اس کو بچانے کے لئے گزشتہ برس 1 ارب 70 کروڑ فنڈز ریلیز کئے گئے جس میں 34 کروڑ بلوچستان یونیورسٹی کو دیئے گئے اور دیگر کو ان کی ضرورت کے مطابق گرانٹ دی گئی۔ 39 ڈگری کالجز کی اپ گریڈیشن کرنے کے علاوہ 107 قانون سازیاں کی گئیں جس میں سے 57 لاز میں بلوچستان اسمبلی سے منظور کرکے قانون سازی کی گئیں۔ جس میں آرٹی آئی کا بل بھی اسمبلی سے منظور ہوا۔ لینڈ لیز پالیسی، بلوچستان فوڈ اتھارٹی کا قیام اور پی ڈی ایم اے کی فعالیت ہماری حکومت کے منصوبے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ماضی میں نظر انداز ہونے والے سپورٹس کے شعبے کو ترجیح دیتے ہوئے فٹسال سپورٹس کمپلیکس کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اداروں کو بنایا جائے اور جن علاقوں میں سہولیات کا فقدان ہے وہاں لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت اسمبلی سے جو بھی قانون سازی کرتی ہے اس پر ادارے عملدرآمد شروع کردیتے ہیں۔ فنڈز کے لیپس ہونے کا تاثر غلط ہے۔ حکومت کے فنڈز لیپس نہیں ہوتے پی ایس ڈی پی میں جو ایلوکیشن رکھی جاتی ہے وہ خرچ نہ ہونے پر دوسری جاری تیز رفتار اسکیموں میں خرچ کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام اتحادی جماعتیں ایچ ڈی پی، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، پی ٹی آئی، اے این پی، حکومت کے ساتھ ہیں۔اور مشترکہ مشاورت کے ذریعے ہی معاملات حل کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ کابینہ میں ایک ڈویڑن اور نئے ضلع کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تمام جماعتوں کا وزیر اعلیٰ بلوچستان پر اعتماد ہے۔ اس موقع پر وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ حکومت عوام کے مسائل کے حل کے لئے اقدامات اٹھاتی ہے اور لیویز میں تقریباً 5 ہزار لوگوں روزگار دیا ہے۔ اگر بھرتیوں کے دوران بے ضابطگی کے کسی کے پاس شواہد ہے تو وہ مجھے دیں تو میں متعلقہ شخص کے خلاف کارروائی کروں گا۔ پی ڈی ایم اے میں کرونا کی وجہ سے بھرتیوں کا عمل تاخیر کا شکار ہے۔ وڈھ واقعہ سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس کی تحقیقات جاری ہے مکمل ہونے پر میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔ اس موقع پر پارلیمانی سیکرٹری کیو ڈی اے مبین احمد خلجی نے کہا کہ کوئٹہ پیکج کے ذریعے شہریوں کو پانی کی فراہمی کے لئے ڈیمز کی تعمیر اور ٹریفک کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے سڑکوں کی تعمیر جس میں گوالمنڈی چوک سے سرکی روڈ کی توسیع کے علاوہ ڈی سی آفس روڈ کو کواری روڈ سے منسلک کرنے کے علاوہ پٹیل روڈ اور پرنس روڈمیں توسیع، شہر میں گیس پریشر کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے سرکی روڈ پر 16 انچ قطر کی گیس پائپ لائن، پشتون آباد میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور وولٹیج کی کمی بیشی کو دور کرنے کے لئے 4 نئے فیڈرز کی تعمیر ممکن بنائی جارہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے