بلوچستان اسمبلی اجلاس، میں ڈی ایچ کوئٹہ کی جانب سے محکمہ پی ایچ ای واسا کی زمین سستے داموں لینے پر توجہ دلاؤ نوٹس پیش

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ڈی ایچ کوئٹہ کی جانب سے محکمہ پی ایچ ای واسا کی زمین سستے داموں لینے پر توجہ دلاؤ نوٹس پیش، صوبے کے مختلف اضلاع میں جعلی ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکٹس کی چھان بین سے متعلق سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی سے رپورٹ طلب جبکہ بلوچستان میں دکانوں اور اسٹیبلشمنٹ، انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ،فیکٹریوں،بلوچستان مغربی پاکستان ویکسینیشن کے قوانین منظور کر لئے گئے۔پیر کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ پچاس منٹ کی تاخیر سے چیئر پرسن شکیلہ نوید دہوار کی زیر صدارت شروع ہوا۔اجلاس میں بی این پی کے رکن اختر حسین لانگو نے اپنی توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر برائے محکمہ پی ایچ ای /واسا سے استفسار کیاکہ بلیلی ایریا میں محکمہ پی ایچ ای اور بی واسا کی ملکیتی زمین جو تقریباََ50ایکڑ پر محیط ہے شنید میں آیاہے کہ وہ زمین محکمہ پی ایچ ای /واسا نے ڈی ایچ او کو اونے پونے داموں دی ہے لہٰذاء مذکورہ زمین ڈی ایچ او کو دینے کی وجہ کس قیمت اور شرط پر دی گئی ہے اس کی مکمل تفصیل فراہم کی جائے۔صوبائی وزیر نورمحمددمڑ نے کہاکہ واسا کی زمین ڈی ایچ اے اسکیم کے قریب سے گزررہی ہے جس سے حاصل کرنے کیلئے ڈی ایچ اے نے وزیراعلیٰ کو اپروچ کیا محکمہ واسا کے بورڈ میں معاملے کو رکھا گیا جس میں ڈپٹی کمشنر کی جانب سے مقررہ ریٹ سے اختلاف کیاگیا اور واسا کاایکٹ ہمیں یہ اجازت نہیں دیتاکہ ہم سرکاری زمین کسی کو دیں معاملے کو ہم نے کابینہ میں بھجوایا تاہم مذکورہ معاملہ دوبارہ بورڈ کو بھجوایاگیاہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا واضح فیصلہ دیں تاہم اس حوالے سے بورڈ کا اجلاس نہیں ہوا۔اس سے متعلق صوبائی کابینہ نے فیصلہ کرناہے انہوں نے کہاکہ مانگی ڈیم کامقصد کوئٹہ کے تمام شہریوں کو پانی فراہم کرناہے۔نورمحمددمڑ نے کہاکہ سرکاری املاک کو نیلام نہیں ہونے دیاجائے گا اس حوالے سے جو بھی فیصلہ ہوگا اس کااختیار کابینہ کو ہے تاہم میں یقین دلاتاہوں کہ سرکاری املاک کا ہر حال میں تحفظ کیاجائے گا اپوزیشن ارکان نے واسا کے بقایاجات کی مد میں فنڈز کی ادائیگی کا حوالہ دیکر بجٹ لیپس ہونے کی جو بات کی دراصل اپوزیشن کے کورٹ میں جانے سے چار ماہ گزرنے کے باعث فنڈز کے مکمل استعمال میں کامیاب نہ ہوئے ابھی ان کی بات جاری تھی کہ اپوزیشن ارکان نے بیک وقت کھڑے ہوکر بولنا شروع کردیاا خترحسین لانگو نے کہاکہ ہم پی ایس ڈی پی کے غلط استعمال اور مخصوص لوگوں کو نوازنے کے خلاف عدالت میں گئے تھے قطعی طورپر حکومت کو اپوزیشن نے پی ایس ڈی پی کے استعمال سے نہیں روکا تھا بلکہ ہم نے کہاتھاکہ پی ایس ڈی پی عوام کے مسائل کے حل اور انہیں سہولیات کی فراہمی کیلئے استعمال کئے جائیں،انہوں نے زور دیاکہ حکومت خود ایک کمیشن بنائیں جو گزشتہ تین سال کی پی ایس ڈی پی کی تحقیقات کریں کہ فنڈز کہاں استعمال ہوئیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔صوبائی مشیر مٹھا خان کاکڑنے کہاکہ صوبائی حکومت کوئٹہ میں 26 ارب روپے کی لاگت سے کام کررہی ہے یہ فنڈز اپوزیشن کے ارکان کے حلقوں میں بھی استعمال ہورہے ہیں اپوزیشن ان منصوبوں کو روکنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ جام کمال صوبے کے تمام حلقوں کی یکساں ترقی پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں اقدامات بھی کررہے ہیں اجلاس میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرے نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ صوبائی اسمبلی اور حکومت نے صوبے کے مختلف اضلاع میں جعلی ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹس کی چھان بین اور ان کی لسٹیں بنانے اور جعلی سرٹیفکیٹس کی تمام تر تفصیلات اسمبلی کے فلور پر جمع کرانیکا وعدہ کیا تھا لہٰذا حکومت اس سلسلے میں مکمل تفصیل فراہم کرے انہوں نے کہاکہ کچھ عرصہ قبل بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹروں نے ایوان بالا میں بلوچستان کے ڈومیسائل پر وفاقی محکموں میں تعینات ملازمین کی تعداد کے بارے میں استفسار کیاتھا جس پر وفاقی حکومت کی جانب سے یہ حیران کن جواب موصول ہوا تھا کہ وفاق میں بلوچستان کے ہزاروں ملازمین ملازمت کررہے ہیں جب اس کی تحقیقات کامطالبہ کیاگیااور اس ضمن میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے اس بابت تحقیقات کرنی تھی کمیٹی کوئٹہ بھی آئی مگر افسوس کہ صرف مستونگ میں کچھ حد تک جعلی ڈومیسائل منسوخ ہوئے اور آج بھی وفاق میں بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر ہزاروں افراد ملازمت کررہے ہیں جو ہمارے نوجوانوں کی حق تلفی ہے صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہاکہ صوبائی حکومت نے فوری طورپر اس مسئلے کا نوٹس لیتے ہوئے تمام ڈپٹی کمشنرز کو خط لکھ کر اس سلسلے میں اقدامات کی ہدایت کردی تھی یہ ہمارے صوبے کے نوجوانوں کا مسئلہ ہے جس پر نہ صرف اسلام آباد میں بلوچستان کے تمام سینیٹرز ایک پیج پر رہیں بلکہ ہم سب بھی اس پر متفق ہیں کہ جعلی ڈومیسائل رکھنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئیں انہوں نے کہاکہ آئندہ کسی اجلاس میں اس سلسلے میں مکمل تفصیل سے آگاہ کرینگے۔اس موقع پر اجلاس کی صدارت کرنے والی پینل آف چیئرمین کی رکن شکیلہ دہوار نے سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی کو ہدایت کی کہ وہ اس ضمن میں تفصیلات اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائیں۔اجلاس میں چیئرمین مجلس قائمہ برمحکمہ محنت و افرادی قوت کی جانب سے مکھی شام لعل نے بلوچستان دکانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے مسودہ قانون مصدرہ2021ء (مسودہ قانون نمبر13مصدرہ2021ء)، بلوچستان انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ کے مسودہ قانون مصدر2021(مسودہ قانون نمبر14مصدرہ2021)،فیکٹریوں سے متعلق مسودہ قانون مصدرہ2021(مسودہ قانون نمبر15مصدرہ 2021ء)سے متعلق مجلس کی رپورٹس ایوان میں پیش کیں اور بعدازاں ایوان نے وزیر محکمہ محنت و افرادی محمدخان لہڑی کی جانب سے لائی گئی تحاریک کو منظور کرتے ہوئے تینوں مسودات کو کمیٹی سفارشات کے بموجب منظور کرلیا۔ دریں اثناء بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان مغربی پاکستان ویکسی نیشن 1958ء میں ترمیم کا مسودہ قانون بھی ایوان کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کی سفارشات کے بموجب منظور کرلیا۔بعدازاں اسمبلی کااجلاس جمعرات 3جون تک کیلئے ملتوی کردیاگیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے