سیکرٹریز کو بلوچستان میں ڈبل الاونس کس قانون کے تحت دیا جارہا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل

کوئٹہ :بلوچستان ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس کامران ملاخیل نے کہا ہے کہ ملازمین بتائیں کہ انہوں نے کس قانون کے تحت سڑک بند کی کیا کہ آرٹیکل 25کی خلاف ورزی نہیں، وفاق سے پوچھا جائے کہ کس قانون کے تحت بلوچستان میں افسران کو ڈبل الاؤنس دیا جائے، حکومت مطالبات پر غور کے لئے ایسی ترامیم نہ کرے کہ عدالت کو ایک بار پھر بیچ میں آنا پڑے، ملازمین کو گھر دینے کیلئے جامع پالیسی بنانی چاہئے،اگر اپ گریڈیشن رول ہیں تو اس کو فالو کیا جائے۔ یہ بات انہوں نے پیر کو بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہی۔ سماعت میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے عدالت میں پیش رفت کے حوالے سے رپورٹ پیش کی اور عدالت کو بتایا کہ ملازمین کے نو مطالبات نو ٹیفائی ہوچکے ہیں جس پر چیف جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ عدالت کے سامنے غلط بیانی سے متعلق آپ کی کیا رائے آپ نے بہت سے باتیں زبانی کیوں طے کیں وفاق سے رابطہ کرکے پوچھا جائے کہ کس قانون کے تحت ان کو الاونس دیا گیا وفاقی سے آنے والے سیکرٹریز کو بلوچستان میں ڈبل الاونس کس قانون کے تحت دیا جارہا ہے۔جسٹس کامران ملا خیل نے کہا کہ سن الاونس کا مطالبہ تو اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے ہے اس طرح تو جج کا بیٹا جج اور جنرل کا بیٹا جنرل بن جائے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اپ گریڈیشن کا کوئی ضابطہ کار ہونا چاہئے اگر کوئی رول ہے تو ترقیاں ملازمین کا حق ہیں آدمی جب کرسی سے ہٹتا ہے تو دھکے کھاتا پھرتا ہے اگر اپ گریڈیشن رول ہیں تو اس کو فالو کیا جائے چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت مطالبات پر غور کیلئے ایسی ترامیم نہ کرکے کہ پھر عدالت کو بیچ میں آنا پڑے تمام ملازمین کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرایا جائے کہ کس آفس کو کتنی تنخواہ مل رہی ہے حکومت ملازمین میں تفریق کیوں رکھتی ہے انہوں نے ایک موقع پر کہا کہ ملازمین بتائیں کہ کس قانون کے تحت سڑک بند کی کیا یہ آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی نہیں انہوں نے کہا کہ جو دوسرے صوبے میں ہو لازمی نہیں کہ دوسرا صوبہ بھی کرے ہیلتھ انشورنس کا مطالبہ تو حکومت سہولیات کی بجائے نجی شعبے کو مضبوط کرنے کیلئے ہے ملازمین کا ہاوسنگ اسکیم کا مطالبہ جائز ہے جس پر جسٹس کامران ملا خیل نے کہا کہ ملازمین کو گھر دینے کیلئے جامع پالیسی بنانی چاہئے۔چیف جسٹس بلوچستان نے استفسار کیاکہ کیا ملازمین حکومتی رپورٹ سے مطمئن ہیں جس پر ایپکا کے صدر داد محمد بلوچ نے کہا کہ ملازمین کا اصل مطالبہ تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کا ہے تنخواہوں میں اضافہ دوسرے مطالبات کے ساتھ منسلک ہے جسٹس کامران ملا خیل نے کہا کہ جن اداروں کو دیگر کی نسبت زیادہ تنخواہ مل رہی ہے ان کو 25 فیصد اضافہ دیا جائے تو انکی مراعات تو آسمان کو جائیں گی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ٹیچرز یونین ساری برائی کی جڑ ہے حکومت کام کرہی ہے لیکن کارکردگی سست ہے آئین کے مطابق ملازمین کو حق دیا جائے، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جمال مندوخیل نے گرینڈ الائنس کے صدر عبدالمالک کاکڑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ سماعت چلے تو چلائیں گے ضروری نہیں کہ 25 فیصد اضافی الاونس ملازمین کو ملے ہم اس پر بات کرینگے وزیر اعلی خود تو دفتر دو بجے آتے ہیں پھر اپنے ملازمین کو اضافی الاونس بھی دیتے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت غریبوں کو کچھ نہیں دیتی لیکن سیکرٹریز کو اضافی تنخواہ دے رہی ہے بعدازاں ملازمین کے دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے